سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں جرائم کی وارداتوں میں ملوث، جرائم پیشہ عناصر بھی جدید آلات سے لیس ہوکر بھیس بدل بدل کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں جرائم کی وارداتوں کی بیخ کنی کرنےکے ذمہ دار محکمہ پولیس کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا اور مختلف معاملات کو بروقت موثر انداز سے نمٹاکر عوام کو جانی و مالی نقصان اور پریشانی سے بچانے کے لئے فورسز کا قیام عمل میں لانا ضروری ہوگیا ہے۔اس سے قبل بھی مختلف فورسز قائم کی گئی تھیں جنہوں نےماضی میںسماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائیاں کرکے صوبے میں امن عامہ کی صورت حال بہتر کی تھی جن میں ’’ایگل اسکواڈ ‘‘ قابل ذکر ہے جس کے جوانوں کو کمانڈو تربیت دی گئی تھی اور اس کے اہل کار جدید اسلحہ اور آلات سے لیس ہوتے تھے جو کسی بھی ہنگامی صورت حال پیش آنے پر بروقت کارروائی کرکے عوام کے جان و مال کا تحفظ کرتے تھے۔ان کی محنت و لگن سے سندھ میں چوری ،ڈکیتی، لوٹ مار راہ زنی اور ہنگامہ آرائیوں کا گراف انتہائی کم تھا۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات ان فورسز پر بھی اثر انداز ہوئے اور یہ رفتہ رفتہ یہ غیرفعال ہوتی گئیں۔
ڈکیتی ، لوٹ مار اور تخریبی سوچ رکھنے والے شرپسند عناصر کے لیے بری خبر ہے کہ نومبر2018 کے پہلے عشرے میں عوام کے جان و مال کے تحفظ اور انہیں مصائب و ذہنی کوفت سے بچانے کے لیے ، غیر قانونی احتجاجوں، جلسے، جلوسوں اور تخریب کاری کی کارروائیوں اور شرپسند عناصر سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نےمحکمہ پولیس کے باصلاحیت جوانوں پر مشتمل ’’انسداد فسادات فورس‘‘ قائم کی ہے جو اس قسم کی صورت حال میں فوری حرکت میں آکر شرپسند عناصر کا قلع قمع کرے گی۔سندھ کے عوام عرصہ دراز سے شرپسند اور تخریب کار عناصرکے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ نان ایشوز پر سیاست کرنے والے افراداور تخریبی ذہنیت کے حامل شرپسندوں کی جانب سے ہنگاموں، احتجاجی جلسے و جلوسوں کی آڑ میں فسادات، دھرنوں، روڈ بلاک، جلاؤ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ،پبلک ٹرانسپورٹ پر پتھراؤ، آتش زنی کے واقعات کی وجہ سے عوام کو یرغمال بنالیا جاتا ہے۔ نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے، کاروبار بندش کا شکار ہوجاتے ہیں، نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ روزانہ کی دیہاڑی پر روزی کمانے والے افراد اور مزدورکام کاج نہ ہونےکی وجہ سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ فاقہ کشی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب سڑکوں پرشرپسندوں کے قبضہ کی وجہ سے ذرائع نقل و حمل اس حد تک متاثر ہوتے ہیں کہ ایمبولینسز کو انتہائی تشویش ناک حالت میں مبتلا مریضوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے لیے راستہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے بیشتر مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے صوبائی حکومت نےانسداد فسادات فورس تشکیل دی ہے جس کے سربراہ ،کراچی میں ڈی آئی جی پولیس ہوں گے۔ نئی پولیس فورس جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس اور پیشہ ور مہارت کے حامل تجربہ کار افسران اور جوانوں پر مشتمل ہوگی ۔ مذکورہ فورس زونز کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل کاروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
پہلےمرحلے میں اس کا قیام کراچی میں عمل میں لایا گیا، جس میں 357اہل کار شامل ہیں جو ہرقسم کی صورت حال میں اپنے فرائض بہ خوبی ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چند ہفتے قبل سندھ کے تیسرے بڑے ضلع سکھر میں بھی غیر قانونی طور پر جلسے، جلوس، احتجاج اور ریلیاں نکالنے ، دھرنا گروپس اور تخریبی کارروائیاں کرنے والےعناصرسے مؤثرانداز سے نمٹنے کے لئے انسداد فسادات فورس قائم کردی گئی ہے۔مذکورہ فورس کے جوان ضلع سکھر میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال اور کشیدہ حالات پر قابو پانے، غیر قانونی طور پر جلسوں، ریلیوں اور احتجاج کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ 40 جوانوں پر مشتمل فورس کے جوانوں کو شہر کے مختلف چوراہوں و شاہراہوں پر تعینات کرکے انہیں ضروری آلات و جدید ساز و سامان مہیا کیا گیا ہے۔ضلع کے کسی بھی مقام پر ممکنہ خطرات، ہنگامی صورتحال اور کشیدگی سے نمٹنے کے لئےفورس کے اہل کار بروقت پہنچ کرکارروائی عمل میں لائیں گے۔ ایس ایس پی سکھر، عرفان علی سموں کے مطابق امن و امان کی صورت حال کو بحال رکھنے اور کسی بھی قسم کی ممکنہ ہنگامی حالات سے بروقت نمٹنے کے لئے ضلع سکھر میں انسداد فسادات فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ مستقبل میں ضلع کے کسی بھی علاقے میں اگر کوئی ہنگامی صورت حال پیش آتی ہے خاص طور پر اگر کوئی سیاسی ، مذہبی تنظیم ،غیر قانونی طور پر جلسے، جلوس، ریلیاں ، دھرنےاور احتجاج کرکے روڈ راستے بند کرتی ہے تو پھر فورس کے جوان فوری طو رپر متحرک ہوکر اس کی روک تھام کو یقینی بنائیں گے تاکہ عوام کوذہنی اذیت سے بچایا جاسکے۔ اس حوالے سے فورس کے اہل کاروں کو احتجاج کے دوران درپیش ہونے والی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی ہے اور انہیں شہر کی اہم شاہراہوں و چوراہوں پر تعینات کردیا گیا ہے۔ اس فورس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے جوانوں کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی آتشیں ہتھیار نہیں ہوگا بلکہ ڈنڈوں، پتھروں سے بچائو کے آلات اور گولیوں سے بچنے کے لیےضروری و جدید ساز و سامان ہوگا، جو کہ فورس کے جوانوں کو فراہم کردیا گیا ہے۔ انسداد فسادات فورس کے جوانوں کو احتجاج اور ریلیوں کے دوران ہنگامہ آرائیوں سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیت بھی دی گئی ہے تاکہ یہ فورس دفاعی حکمت عملی کو اپناتے ہوئےبہتر انداز سے اپنا کام جاری رکھ سکے۔ ابتدائی طو رپر فورس کے جوانوں کی تعداد کو 40رکھا گیا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے اہل کاروں کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے گاتاکہ نہ صرف سکھر شہر بلکہ تعلقہ سطح پر بھی اس کے اہل کار فوری طور پر حرکت میں آکر معاملات کو بہتر انداز سے نمٹاسکیں۔ انسداد فسادات فورس کے جوانوں کوخصوصی تربیت بھی دی جارہی ہے جب کہ دفاعی آلات سے لیس کیا جارہا ہے۔ فورس کے جوانوں کو بلٹ پروف جیکٹس، جدید لاٹھییاں، ہیلمٹ وتمام ضروری آلات فراہم کردیے گئے ہیں۔ فورس میں زیادہ تر نوجوان اہل کاروں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس طرح کی فورس کے قیام سے فوری طور پر احتجاج کی صورت میں بند سڑکوں کو کھلوایا جاسکے گا۔
ماضی میں اس حوالے سے غیر تربیت یافتہ پولیس اہل کارر جلائو، گھیرائو، یا مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے مسلح کارروائیاں کرتے تھے، جن کے منفی اثرات سامنے آتے تھے۔،عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے ، تخریب کار اور دہشت گردعناصر، مظلوم بن کر میڈیا پر حکومتی مشینری کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے تھےجب کہ حقوق انسانی کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ان کی حمایت میںبیان بازی اور احتجاج شروع کردیتی تھیں جب کہ پولیس فورسز کی کارروائیوں کو ظالمانہ قرار دیا جاتا تھا۔تاہم مذکورہ تربیت یافتہ فورس جو کہ بغیر اسلحے کےامن و امان کی بحالی کا فریضہ انجام دے گی، اس کی کارروائیوں سے لاقانونیت کے واقعات سے مؤثر انداز سے نمٹا جاسکے گا۔ ماضی میں اکثر دیکھنے میں آتا تھا کہ مٹھی بھر افرادناجائز مطالبات منوانے اور حکومت کو بلیک میل کرنےمیں ناکامی پر احتجاج کرتے ہوئے مختلف مقامات پر دھرنا دے کربیٹھ جاتے تھے اورمرکزی شاہراہوں کو بند کردیتے تھے، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام معطل ہوکر رہ جاتا تھا،اور عوام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں دشوار کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بعض اوقات لوگ قومی شاہراہ پر بھی دھرنا دے کرٹریفک کی آمد و رفت معطل کردیتے تھے جس سےملک کے بالائی علاقوں کی طرف جانے والی ٹریفک کا نظام متاثر ہوتا تھا۔
اس صورت حال کے خاتمےاور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو کافی دشوار کن حالات سے گزرنا پڑتا تھا جب کہیں جا کر کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد امن و امان بحال کرنے میں کامیابی حاصل ہوتی تھی جب کہ بعض اوقات صورت حال اس قدرابتر ہوجاتی تھی کہ پولیس کو طاقت استعمال کرنا پڑتی تھی جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہوجاتے تھے، جن کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے تھے۔ انسداد فسادات فورس کے قیام سے اب غیر قانونی طور پر احتجاج کرکے سڑکوں کو بند کرنے والوں سے فوری طور پر آسانی سے نمٹا جاسکے گاجب کہ مظاہرین کی آڑلے کر جلائو، گھیرائو کرنے والے شر پسند عناصر بھی پولیس کی گرفت میں آسکیں گے۔ ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کا کہنا ہے کہ ضلع سکھر میں ڈاکوئوں، جرائم پیش اورسماج دشمن عناصر، روپوش و اشتہاری ملزمان کی 100فیصد گرفتاری اور سماجی برائیوں بالخصوص منشیات فروشوں کے خلاف جاری کریک ڈائون کے ساتھ ساتھ انسداد فسادات فورس کا قیام عمل میں لانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، اس فورس کے قیام سے پولیس کوامن و امان کی صورت حال مستحکم رکھنے میں کافی مدد ملے گی اور شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے کاروبار زندگی کی معطلی اور عوام کی پریشانی سے پولیس پر پڑنے والا دبائو بھی کافی حد تک کم ہوگا۔ پولیس ذرائع کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اس فورس میں کی نفری میں مزید اضافہ کیا ئے گا جب کہ اہل کاروں کو مزید تربیت اور جدید آلات اورسہولتیںبھی فراہم کی جائیں گی۔
سکھر کے شہری و عوامی حلقوں، ملک فلاحی جماعت کے ملک محمد جاوید، سکھر اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کے چیئرمین حاجی ہارون میمن، سکھر اسمال ٹریڈرز کے صدر حاجی جاوید میمن، بندھانی برادری کے صدر حاجی شریف بندھانی، عبدالجبار راجپوت و دیگر نے پولیس کی جانب سے انسداد فسادات فورس کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فورس کے قیام سے عوام کو احتجاج کے دوران سڑکیں بند ہونے سے پیدا ہونے والی پریشانی سے نجات ملے گی۔اس موقع پر انہوں نے اس امید کااظہاربھی کیا کہ صوبائی حکومت اور پولیس حکام کراچی سمیت سندھ بھر سے بڑھتی ہوئی ڈکیتی ،لوٹ مار، راہ زنی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے اینٹی ڈکیت فورس، انسداد دہشت گردی فورس اور ایگل اسکواڈ طرز کی نئی فورس بھی تشکیل دیں گے تاکہ عوام پرسکون اور حفظ و امان کے ماحول میں زندگی بسر کرسکیں۔