• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

امریکا و طالبان کا 17 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کا معاہدہ

امریکا اور افغان طالبان نے 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کا معاہدہ کرلیا،18 ماہ میں غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑنے پر بھی اتفاق ہوگیا۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 6 روز سے جاری مذاکرات میں امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں امن کےلئے انتہائی اہم معاہدہ ہوگیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغان طالبان اور امریکی وفود کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت جنگ کے خاتمے کے ساتھ آئندہ 18 ماہ میں غیر ملکی افواج کے افغانستان چھوڑنے پر اتفاق ہوا ہے۔

خبر ایجنسی کے مطابق امریکا اور افغان طالبان کے مذاکرات میں جنگ بندی اور غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاکےمعاہدے کے بعد طالبان براہ راست افغان حکومت سے بات کریں گے۔

دوحہ مذاکراتی عمل مکمل ہونے کے بعد امریکی نمائندے خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد پیشرفت سے افغان صدر اشرف غنی کو آگاہ کرنے کےلئے کابل روانہ ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جنگ بندی کا شیڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائےگا،تاہم یہ بات سامنے نہیں آسکی کے معاہدے کے حوالے سے کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوگا یا معاہدے کی تمام شقوں کو امریکا نے قبول کرلیا ہے یا اس میں چند ایک پر اس کے اعتراض باقی ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر تاحال کابل میں واقع امریکی سفارتخانے کا موقف سامنے نہیں آیا ہے،حالات سے آگاہی کے بعد افغان حکومت کے ردعمل سامنے آنے کی توقع کی جارہی ہے۔

طالبان ذرائع کے مطابق طالبان نے امریکا کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی سرزمین القاعدہ یا داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں پر حملے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہی امریکا کا مرکزی مطالبہ تھا۔

طالبان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ بندی کے حوالے سے دورانیے کو حتمی شکل دیں گے تاہم افغان حکومت کے نمائندوں سے صرف اس وقت بات چیت ہوگی جب جنگ بندی کا نفاذ ہوجائے گا۔

طالبان ذرائع کے مطابق معاہدے کے دیگر نکات میں قیدیوں کا تبادلہ، طالبان رہنماؤں پر عائد سفری پابندیوں کا اختتام اور سیز فائر کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام شامل ہیں۔

افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں گزشتہ ایک ہفتے سے مذاکرات جاری تھے جن میں جنگ بندی اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر غور کیا جارہا تھا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی حکام ایسے امن معاہدے کے خواہاں ہیں جس کے تحت طالبان کی آئندہ افغان حکومت میں شمولیت کی راہ ہموار ہوسکے۔

امریکی حکام کا یہ بھی اصرار ہے کہ طالبان موجودہ افغان حکومت سے مذاکرات کا آغاز کریں تاہم طالبان اب تک اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں بھی پاکستان کی معاونت سے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں افغان امن مذاکرات ہوئے تھے جس میں طالبان سمیت فریقین نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ مذاکرات میں شریک طالبان نمائندے اپنی شوریٰ سے بات کریں گے اور جس کے بعد دوبارہ زلمےخلیل زاد سے ملاقات کریں گے۔

پاکستان کی معاونت سے شروع ہونے والے مذاکرات میں امریکا اور افغان طالبان کے علاوہ اماراتی اور سعودی حکام بھی حصہ تھے۔

دسمبر کے مہینے میں ہی وزیراعظم عمران خان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خط لکھا تھا جس میں پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا تھا۔

 جواب میں وزیراعظم نے کہا تھا ہم افغانستان میں امن لانے کے لیے خلوص کے ساتھ پوری کوشش کریں گے، اس کے بعد طالبان اور امریکی حکام کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے تھے۔

تازہ ترین
تازہ ترین