• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری رائے عامہ کے ایک بڑے حصے کو اُس فعل سے ہمدردی دکھائی دیتی ہے جس کا ارتکاب ممتاز قادری نے کیا،کیونکہ تاثر یہ ہے کہ سابق گورنر پنجاب، سلمان تاثیر ، جو لبرل سوچ کے مالک تھے،نے توہین کے قانون پر تنقید ی رائے دی تھی۔ سلمان تاثیر کے جنازے میں بہت کم لوگ شامل تھے حالانکہ اُس وقت اُن کی جماعت، پی پی پی کی مرکز میں حکومت تھی ، لیکن دوسری طرف ممتاز قادری ، جسے عدالت نے قتل اور د ہشت گردی کے الزام میں سزائے موت سنائی ، کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ کیا اس پر رجائیت کا کوئی پہلو نکلتا ہے کہ اُسے ریاست نے سزاسنائی ، حالانکہ اس کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ یہ انتہا پسندی سے اغماض برتتی ہے؟
کیا ہم ان تضادات پر بات کر سکتے ہیںجن کی وجہ سے اس ریاست میں آزادی سے سانس لینا دشوار ہوتا جارہا ہے؟ قادری کو انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی ، لیکن پھر اُن جج صاحب کواپنی جان بچانے کے لئے ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ جب ممتاز قادری کی اپیل پرعدالت میں سماعت ہوتی تھی تو اُن کے حامی عدالت کے باہر جذباتی نعرہ زنی کررہے ہوتے تھے۔ اگرچہ ہائی کورٹ نے کہا کہ دہشت گردی کا الزام غلط ہے لیکن اس نے بھی سزائے موت کو برقرار رکھا،لیکن سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں قتل کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا الزام بھی بحال کردیااور سزائے موت برقرار رکھی۔ سویلین عدالتوں میں قادری کا کیس چلنے سے پہلے اکثریت کی رائے تھی کہ یہ معاملہ مدتوں التوا کا شکار رہے گا اور اس کی سماعت کی نوبت نہیں آئے گی۔ جب سماعت شروع ہوئی تو بہت کم کو یقین تھا کہ جج حضرات اُسے سزائے موت دے سکیں گے کیونکہ معاملہ بے حد جذباتی نوعیت کا تھا۔ جب ہائی کورٹ نے دوٹوک انداز میں سزائے موت کو برقرار رکھا تو عمومی تاثر تھا کہ تاثیر کے اہل ِخانہ دبائو برداشت نہیں کرپائیں گے اور، خاص طور پر شہباز تاثیر کے اغوا کے بعد، خون بہا کی رقم کے عوض ممتاز قادری کو معاف کردیںگے۔
حالیہ دنوں فوجی عدالتوں کے قیام کا یہ جواز بتایا گیا تھا کہ سویلین جج دہشت گردوں کو سزا سنانے سے خائف ہوجاتے ہیںتو یہ سوچ ذہن میں آتی تھی کہ سپریم کورٹ میں کی گئی اپیل کا کیا بنے گا۔ تاہم فاضل عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایک محافظ کے ہاتھوں اُس شخص کی ہلاکت جس کی حفاظت پر وہ معمور ہو، صرف قتل ہی نہیں، غداری بھی ہے۔ اس کے بعد بہت سے افراد کا خیال تھا کہ پی ایم ایل (ن) اور صدر ِ مملکت شاید دائیں بازو کے دبائو میں آکر قادری کو معاف کردیں لیکن یہ بھی نہ ہوا، اور ریاست نے قانون کے مطابق کارروائی کی ۔ تاہم سزا پر عمل درآمد کے بعد معاشرے نے دکھایا کہ ہم کیا بن چکے ہیں، اور یہ دیکھ کردل دہل جاتا ہے۔ مشہور صوفی شاعر، میاں محمد بخش نے کیا عمدہ بات کہی ہے۔۔۔’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مرجاناں‘‘۔ یقینا ممتاز قادری ملک دشمن نہیں،وہ اس معاشرے میں پھیلی ہوئی (بلکہ ریاست کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے جان بوجھ کر پھیلائی گئی) تنگ نظری اور انتہا پسندی کا عملی مظہر بن گیا جو اپنے عقیدے، روایات اور انا کے لئے کسی انسان کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ جب کسی معاشرے میں اس قدر انتہائی جذبات کو فروغ دیا گیا ہو تو وہاں صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے والی عقل مائوف ہوجاتی ہے۔
اس کیس میں معاشرے کی تقسیم ہمارے ہاں بہت سے معاملات پر سماجی تنائو کو ظاہر کرتی ہے، (i) ریاست اور معاشرے میں مذہب کا کردار اور یہ سوال کہ کیا ریاست کو مذہب کو فروغ دینے اور نافذ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے؟ (ii) کیا معاشرے میں کچھ افراد کو عقائد کے حوالے سے اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنے کاحق حاصل ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی حقوق کے درمیان توازن کی بحث چل نکلے، (iii)کیا ہماری ریاست عالمی برادری کی ایک معاون رکن اور ریاست پر مبنی قومیت کے متحرک تصور کی حامل ہے یادوسروں کو فتح کرکے اپنے عقائد پھیلانے کے ایجنڈے پر کاربند ہے؟قادری کا کیس ریاست کی طاقت کی حدود بھی اجاگر کرتا ہے۔ اگرچہ معاشرے کے طاقتور دھڑوں کی رائے ممتاز قادری کے فعل کو گناہ نہیں سمجھتی تھی لیکن ریاست نے عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا پر عمل درآمد یقینی بنایا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دور و نزدیک سے چل کر اُن کے جنازے میں شرکت کرنے والے حامیوں کی طرف سے غم و غصے کا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ سزائے موت نظریاتی افراد کو ڈرانے میں ناکام رہتی ہے۔
اس کیس میں ان لبرل افراد کا دہرا معیار بھی آشکار ہوتاہے جو یوںتو سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ ممتاز قادری کو ملنے والی پھانسی کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جو سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں، اُن کا موقف ہے کہ چاہے جو بھی جرم ہو، ریاست کے پاس کسی کی جان لینے کا حق موجود نہیں کیونکہ دنیا کے بہترین جسٹس سسٹم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے لیکن جب ایک مرتبہ کسی کو سزائے موت دے دی جائے تو پھر اس غلطی کا مداوا ناممکن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کے بھی ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ سزائے موت سنگین جرائم کو روکنے کے لئے کبھی ڈیٹرنس ثابت نہیں ہوتی۔ تاہم لبرل افرادکے پاس یہ کہنے کا جواز یقینا موجود ہے کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ریاست مجرموں کے درمیان تخصیص نہیں کرسکتی۔ منطق اور استدال کہتے ہیں یا تو ریاست ہر قسم کے جرائم ، جیسا کہ قتل، آبروریزی، دہشت گردی،قتل ،وغیرہ پر سزائے موت ختم کردے، لیکن جب تک وہ ایسا نہیں کرتی، اس کے پاس اس بات کا حق نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس کی سزا پر عمل درآمد کرنا ہے اور کس کو معرض ِ التوا میں رکھنا ہے۔نہ ہی وہ عوام کے کچھ حلقوں کے رد ِعمل سے ڈر کر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرسکتی ہے۔
ہم نے ریمنڈڈیوس سے خون بہالے کر سزا سے بچنے میں مدد کی تو وہ بھی ہمارے جسٹس سسٹم کی کمزوری کا اظہار تھا، لیکن اس کیس کا حوالہ دے کر قادری کو معاف کرنے کی دلیل دینا درست نہیں۔ یقینا ڈیوس کیس ہمیں اپنے کریمنل جسٹس سسٹم میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے لیکن صرف اس بنیاد پر نہیں کہا جاسکتا کہ اب قادری کو بھی چھوڑ دیا جائے۔ دو غلط کام غلطی کو درست نہیں کردیتے۔ اسی طرح آسیہ بی بی کے کیس کا حوالہ دے کر بھی کہا جارہا ہے کہ اُسے ابھی تک سزا کیوں نہ ہوئی۔ یہ موازنہ بھی درست نہیں۔ قادری نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ اُس نے گورنر تاثیر کو قتل کیا ہے، چنانچہ اُس کی طرف سے پیش ہونے والے وکلااُس کے قتل یا قتل کرنے کے ارادے سے انکار نہیں کررہے تھے بلکہ کہا یہ جارہا تھا کہ اُس نے کسی مذہبی فریضے کی انجام دہی کے لئے قتل کیا ہے۔ جسٹس کھوسہ نے قادری کی اپیل مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا۔۔۔’’ریاست کا قانون کسی شخص کو اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ خود ہی شکایت کنندہ، استغاثہ، منصف اور جلاد بن جائے‘‘
ممتاز قادری کو ملنے والی حمایت اور ہمدردی کا تعلق جذباتی دلیل سے ہے کہ اگر کوئی عشق ِ رسولﷺ میں سرشار ہوکر کسی کی جان لے لے تو اسلامی ریاست میں اُسے سزا نہ دی جائے۔ اسی دلیل سے ایک اور منطق پیش کی جاتی ہے کہ توہین کے قانون پر نظر ثانی کا کہنا بھی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔جہاں تک آسیہ بی بی کیس ہےتو یہ بات نہیں کہ اُس نے توہین کا ارتکاب کیا اور ہم اسے برداشت کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، بلکہ اُس کا موقف یہ تھا کہ اُس پر توہین کا الزام لگا کر کسی مقامی شخص نے بدلہ لیا ہے۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان میں توہین کے قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ اس قانون پر نظر ِ ثانی کا کہنا کس طرح توہین کے زمرے میں آتا ہے؟ سپریم کورٹ نے قادری کی اپیل کے جواب میں لکھا ۔۔۔’’یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ توہین کے الزام میں بہت سے کیسز درج ہوتے ہیں جن میں بعض مذموم مقاصد کے لئے غلط الزامات لگائے جاتے ہیں۔۔۔ یقینا توہین ایک انتہائی گھنائونا فعل ہے لیکن اس کا غلط الزام بھی اتنا ہی گھنائونا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی تنگ نظر معاشرہ بن چکے ہیں جہاں دلیل، برداشت اور منطق سے بات کرنے کی گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ اب یہاں انتہائی رویے رکھنے والوں اور تبدیلی کی خواہش کرنے والوں کے درمیان طبل جنگ بج چکا ہے۔ اگر ریاست چاہتی ہے کہ یہاں رواداری اور تبدیلی کے رویے فروغ پائیں اور تنگ نظری اور عصبیتوں کی آنچ دھیمی کی جائے تو اسے اس آگ کو بھڑکانےکئے والی فیکٹریوں کو بلاتاخیر بند کرنا ہوگا۔
تازہ ترین