• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں شاعری کی کتاب ہاتھوں ہاتھ نکلتی ہے چنانچہ اگر آج کسی شاعر کا مجموعہ شائع ہوتا ہے تو شام تک وہ مفت بروں کے ذریعے ہاتھوں ہاتھ نکل چکا ہوتا ہے۔ میرے ماڈل ہائی اسکول کے کلاس فیلو ناصر زیدی کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا تو اس کے ایک ہفتے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہا ”میرے شعری مجموعے کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو گیا ہے“ میں نے پریشان ہو کر پوچھا ”پہلا کہاں گیا؟“ یہ ایک جینوئن سوال تھا مگر وہ ناراض ہو گیا، میں نے تو ناصر کے ساتھ یہ بے ضرر قسم کی جملے بازی کی لیکن مجتبیٰ حسین نے تو اپنے ایک دوست کی کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جو صاحب اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی خریدیں گے، انہیں پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت دی جائیں گی۔ اس طرح کا ظلم شاعروں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، ایک دفعہ اس طرح کی حرکت مجھ سے بھی ہوئی تھی جس کا مجھے ابھی تک افسوس ہے۔ ایک شاعر اپنے تازہ شعری مجموعے کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے، یہ تحفہ مجھے پیش کیا اور بار بار میری توجہ اس کی مضبوط جلد کی طرف مبذول کراتے اور کہتے رہے کہ آپ نے کسی شعری مجموعے کی اتنی مضبوط جلد کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ ان کی اس تکرار سے تنگ آ کر میں نے کہا ”آپ صحیح کہتے ہیں، واقعی بہت مضبوط جلد ہے، میری خواہش ہے کہ دوسرے شعراء بھی آپ کی تقلید میں اپنے شعری مجموعوں کے ”تابوت“ اتنے ہی مضبوط بنوائیں!“ نتیجہ صاف ظاہر ہے اس کے بعد میرے ان کے تعلقات ختم ہو گئے۔
دراصل جس طرح ہمارے ہاں جمہوریت کے بڑے بڑے علمبردار آمرانہ ذہن رکھتے ہیں ، یہی معاملہ ہمارے بعض شعراء کا بھی ہے، آپ ان کی شاعری پر رائے دیں وہ پوری توجہ او رتحمل کے ساتھ آپ کی بات سنیں گے بشرطیکہ آپ ان کی شاعری کی اتنی تعریف کر رہے ہوں جتنی تعریف کے وہ خود کو مستحق سمجھتے ہیں ورنہ آپ کی مبالغہ آمیز تعریف بھی رائیگاں جائے گی کیونکہ آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ انہوں نے شاعری کے ایوان میں خود کو کس مسند پر بٹھا رکھا ہے؟ میرے ایک دوسرے نے خود کو شعری دنیا کا مہاتما بدھ قرار دے ڈالا لیکن یار لوگوں نے انہیں مہاتما بدھ ماننے کی بجائے انہیں ”مہاتما خود“ کہنا شروع کر دیا۔ یہ ساری باتیں میں محض اس لئے بیان کر رہا ہوں تاکہ وہ وجوہ آپ کے سامنے لا سکوں جس کی وجہ سے میں کتابوں کی تقریب رونمائی میں شرکت سے حتی المقدور گریز کرتا ہوں کیونکہ آپ صاحب ِ کتاب کی چاہے جتنی مرضی تعریف کر لیں ، اس کا نتیجہ بہرحال ان کی ناراضگی کی صورت ہی میں نکلے گا ۔ وجہ وہی کہ آپ اس کے مرتبے سے واقف ہی نہیں ہیں، اور یوں اس طرح کی تقریبات میں شرکت ”نیکی برباد گناہ لازم“ کے زمرے میں آتی ہے۔ ایک طرف آپ ادب کے شناوروں سے اس جھوٹ کی وجہ سے منہ چھپاتے پھر رہے ہوتے ہیں جو آپ نے صاحب کتاب کی شاعری کے حوالے سے بولا تھا اور دوسری طرف صاحب ِ کتاب سے آئندہ کے لئے آپ کے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں کہ بقول ان کے آپ نے ان کی مطلوبہ تعریف بوجہ حسد نہیں کی۔
کراچی سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ ناصرہ زبیری سوچ رہی ہوں گی کہ شاید میرے اعزاز میں یہ تقریب یہ سب کچھ مجھے سنانے کے لئے کی تھی تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ جب آپ کسی نقاد کی بجائے کسی کالم نگار کو اظہار خیال کے لئے بلائیں گی تو وہ بیچارا اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے سوا اور کیا کہے گا؟ میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ میں نقاد نہیں ہوں، شریف آدمی ہوں مگر میری کوئی سنتا ہی نہیں، تو پھر اب بھگتیں یا یہ سوچ کر درگزر کریں کہ یہ ”اسٹارٹر“ ہے ، ”کھانا“ بعد میں آئے گا، میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ناصرہ زبیری سے میرا رشتہ ان کی اس شاعری کے حوالے سے ہے جو میں برس ہا برس سے پڑھ رہا ہوں اور ان کے شوہر شہاب سے میرا ایک اور طرح کا رشتہ ہے جس کی مدت ناصرہ کی کل عمر سے بھی زیادہ ہے۔ میرا ”شہاب“ سے 1959ء میں تعارف ہوا تھا جب میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا مگر یہ ”شہاب“ دراصل مولانا کوثر نیازی کا ہفت روزہ ”شہاب“ تھا، جس میں میرا پہلا کالم شائع ہوا تھا چنانچہ میں جب کبھی شہاب زبیری کا نام سنتا ہوں تو یہ سوچ کر مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ اگر میری کالم نویسی کی عمر 53سال ہو چکی ہے تو میری اصلی عمر کے بارے میں کیسی کیسی بدگمانیاں دوستوں کے علاوہ خواتین کے ذہن میں بھی جنم لیتی ہوں گی، چلیں شہاب بھائی آپ کی خاطر یہ بھی منظور کہ ایک دنیا آپ سے محبت کرتی ہے، سو میں کون ہوتا ہوں جو آپ کے حلقہٴ ارادت سے نکلنے کی خواہش کروں؟
مجھے یقین ہے کہ ناصرہ زبیری دل ہی دل میں ”وٹ“ کھا رہی ہوں گی کہ یہ بندہ میرے ساتھ کیا کر رہا ہے، سو میرے خیال میں اب مجھے سنجیدہ ہو جانا چاہئے کہ ناصرہ کی شاعری حقیقتاً سنجیدگی کی متقاضی ہے۔ میں نے ناصرہ کو اس وقت پڑھا جب وہ کالج میں پڑھتی تھیں، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کالج کے زمانے میں شاعری کرنے والی لڑکیاں آگے چل کر بھی واقعی شاعرہ ثابت ہوں ۔ میں نے ایسا ہوتے پروین شاکر اور چند دوسری خواتین کی صورت ہی میں دیکھا ہے۔ مجھے پروین شاکر اور ناصرہ زبیری میں ایک مماثلت یہ بھی نظر آئی ہے کہ دونوں کی کالج کے زمانے کی شاعری بھی اگرچہ اعلیٰ معیار کی تھی مگر آگے چل کر اس میں مزید نکھار آتا چلا گیا۔ یہاں ایک اور پرابلم کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہم سب لوگوں ایک دوسرے کے منہ پر اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور بعد میں اس کے عذر پیش کرنے لگتے ہیں۔ یہ منافقت گھن کی طرح ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرتی چلی جا رہی ہے ، خود میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ ایسی کسی تقریب میں شرکت نہ کروں جہاں مجھے جھوٹ بولنا پڑے۔ سو الحمد للہ ناصرہ زبیری کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے مجھے جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ناصرہ زبیری درجہ اول کی شاعرہ ہے، مجھے دوستوں کی طرف سے ہر ماہ تقریباً بیس پچیس تازہ شعری مجموعے موصول ہوتے ہیں، ان میں سے تین چار ایسے ضرور ہوتے ہیں جن کی اشاعت کا جواز موجود ہوتا ہے۔ ناصرہ کے پاس نہ صرف یہ کہ اپنے شعری مجموعے ”کانچ کا چراغ“ کا جواز موجود ہے بلکہ اگر یہ شعری مجموعہ شائع نہ ہوتا تو یہ شعری حلقوں کے ساتھ زیادتی ہوتی۔ میں جو کہنے جا رہا ہوں اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ”کانچ کا چراغ“ کا جو صفحہ بھی میں نے کھولا ہے اس میں مجھے تازہ کاری نظر آئی ہے۔ ناصرہ کے شعر میں شاعری کا وہ بنیادی وصف موجود ہے جسے ظفر اقبال ”لطف ِسخن“کا نام دیتے ہیں۔
میں نے ”کانچ کا چراغ“ کے فلیپ میں لکھا ہے کہ بہت عرصہ قبل جب میں نے ان کی شاعری پڑھی تو مجھے اس وقت ہی اس میں تخلیقی حیرت نظر آئی تھی اور آج ان کی نئی شاعری پڑھنے کا موقع ملا تو میں نے محسوس کیا کہ اس میں وہ یبوست پیدا نہیں ہوئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بعض شاعروں کے ہاں در آتی ہے۔ ان شعراء کا کلام پڑے پڑے پختہ تو ہو جاتا ہے لیکن میں اس پختگی کو ”اینٹ درجہ اول“ والی پختگی سمجھتا ہوں جو حریف پر ضرب کاری تو لگا سکتی ہے مگر کسی کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جبکہ میرے نزدیک ناصرہ کی کم و بیش ہر غزل میں کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور ہے جو اسے آج کے شعراء کی صف میں بہت نمایاں مقام کا حامل بناتی ہے اور یاد رکھیں شاعری میں یہ رتبہٴ بلند ہر کسی کو نہیں ملتا۔ چنانچہ میں پوری دیانت داری سے محسوس کرتا ہوں کہ ”کانچ کا چراغ“ 2012ء کا بہترین شعری مجموعہ قرار دیئے جانے کا مستحق ہے۔
خواتین و حضرات! میں نہ نہ کرتے ہوئے بھی اتنا سنجیدہ ہو گیا ہوں کہ خود مجھے اپنا دم گھٹتا محسوس ہونے لگا ہے۔ اللہ جانے آپ کے دل پر کیا بیت رہی ہو گی۔ دراصل میری خواہش اس تقریب میں صرف شرکت کی تھی کیونکہ شعر پر تنقیدی گفتگو مجھے سرے سے نہیں آتی تاہم اس حوالے سے آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پھر آپ نے ہمارا وقت کیوں ضائع کیا؟ تو میرا معاملہ بھی اس خاتون کا سا ہے جسے دکاندار کپڑے دکھاتے دکھاتے تنگ آ گیا تو بولا ”محترمہ مجھے افسوس ہے آپ کو کوئی کپڑا پسند نہیں آیا“ خاتون نے کہا ”کوئی بات نہیں، میں بھی گھر سے سبزی لینے ہی نکلی تھی!“
تازہ ترین