• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اغواء کی وارداتوں میں موبائل فون ٹیکنالوجی کا استعمال

دانائوں کا قول ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، اس لئے یہ ضروری نہیں کہ دل فریب نسوانی آواز کی انسیت حقیقت پر مبنی ہو۔ وہ بھی اس صورت میں جب اغوا برائے تاوان کی وارداتیں انجام دینے والوں نے نسوانی آواز کو ذریعہ بناکر لوگوں کو اغوا کرنے کی وارداتیں انجام دینا شروع کررکھی ہوں، تو پھر ایسے میں خبردار، ہوشیار۔موصول ہونے والی اجنبی کال اور وہ بھی نسوانی آواز آپ کے لئے خطرے کا الارم ثابت ہوسکتی ہے۔ کشمور پولیس ایک ماہ کے دوران نسوانی آوازوں کے جھانسے میں آنے والے 8افراد کو ڈاکوئوں کے چنگل سے رہائی دلانے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ یہ افراد خواتین کی آواز کے فریب میں آکر کچے کے علاقے میں پہنچے جہاں انہیں ڈاکوئوں نے اغوا کرلیا۔ اطلاع ملنےپر پولیس نے کارروائی کرکے ان کی رہائی کو یقینی بنایا۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدیددور میں جرائم پیشہ عناصر نے بھی اس سے استفادہ کرتے ہوئے جرائم کی وارداتوں کی انجام دہی کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرلئے ہیں۔ اب ماضی کی طرح شاہ راہوں پر گاڑیاں روک کر لوگوں کو اغوا کرنے کے بجائے نسوانی آواز میں پیار و محبت کا خوش کن فریب دے کر انہیں اپنی کمین گاہوں کے گردونواح بلاکر چنگل میں پھنسانے والے گروہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ایسے گروہوں کا کسی حد تک خاتمہ کردیا گیا تھا تاہم ایک مرتبہ پھر ڈاکوئوں کی جانب سے موبائل فون پر ’’کال وائس چینجر اپلیکیشن ‘‘(Call Voice Changer Application) کے ذریعے، خواتین کی آوازبنا کر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کے خاتمے کے لئے پولیس نےبھرپور انداز سے کارروائیاں شروع کردی ہیں۔اس کا ثبوت کندھ کوٹ کشمور پولیس کی جانب سے ایک ماہ کے دوران 8 افراد کو ڈاکوئوں کے چنگل سے آزاد کرانا ہے، جو کہ عورتوں کی آواز کے جھانسے میں آکر،ڈاکوئوں کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔ بازیاب کرائے جانے والے افراد کا تعلق، حیدرآباد، مٹیاری ، سکھر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع سے ہے۔

ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ کے مطابق کشمور کندھ کوٹ کے کچے کے علاقوں میں 2سے 3گروہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پولیس کی جانب سے ان گروہوں کے خاتمے کے لئے بھرپور طریقے سے کریک ڈائون کیا جارہا ہے جس میں ہمیں کامیابیاں بھی حاصل ہورہی ہیں۔ 4ماہ قبل حیدرآباد سے اغوا ہونے والے شخص کو بھی بہ حفاظت بازیاب کرایا گیاتھا۔ مغوی نسوانی آواز کے جھانسے میں آکر ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ اس سلسلے میں پولیس کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ 4ماہ قبل حیدرآباد سے اغوا کئے جانے والے مغوی معشوق علی کو ڈاکو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کررہے ہیں جس پر پولیس کی ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے ڈاکوؤں کا تعاقب کیا تو ڈاکوؤں نے پولیس پر فائرنگ کردی، پولیس نے جوابی فائرنگ کی۔ پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان کچو کیٹی کے علاقے میں فائرنگ کے تبادلے کے بعد ڈاکو مغوی کو چھوڑ کر کچے کے علاقے میں فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ بازیاب کرائے جانے والے شخص کی شناخت معشوق علی کے نام سے ہوئی ہے جو کہ ڈسٹرکٹ مٹیاری کا رہائشی ہے۔ جسے 4ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا۔ ایک دوسری کارروائی کے دوران پولیس نے سکھر کے رہائشی دو افراد جو کہ اسی طرح کے فریب میں آکر کندھ کوٹ کے علاقے کچو کیٹی میں پہنچ کرڈاکووں کے چنگل میں پھنس گئے تھے، انہیں بھی بازیاب کرایاگیا۔ ڈاکووں نے سافٹ ویئر کی مدد سے موبائل فون کے ذریعے لڑکی کی آواز بنا کردونوں مغویوں سے دوستی کی ، بعذ ازاںانہیں ملنے کے بہانے بلایا۔ ڈاکو انہیں اغواء کرنا چاہتے تھے مگر پولیس نے بروقت کاروائی کی اور فائرنگ کے تبادلے کے بعد ڈاکو دونوں مغویوں کوچھوڑ کرفرارہوگئے۔ مغوی محمد صالح اور غلام حیدرکاتعلق سکھر سے ہے جب کہ اس سے قبل بھی پولیس نے نسوانی آواز کے جھانسے میں کچے کے علاقے میں آنے والے 4افراد کو اغوا ہونے سے بچایا تھا۔

ایس ایس پی سیداسد رضا شاہ نے ’’جنگ ‘‘کو بتایاکہ ڈاکووں کے مختلف گروہ ہیں جن میں لالوشیخ اورسکندرسبزوء شامل ہیں ۔مذکورہ گروہ کے افراد، سادہ لوح عوام کو موبائل سافٹ ویئر کی مددسے لڑکی کی آواز میں گفتگو کرکے دوستی کرتے ہیں اورجب لوگ ان کی جعل سازی میں آجاتے ہیں توپھریہ ڈاکوانہیں ملاقات کے بہانےمخصوص مقامات پر بلاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اغواء کرنے کے بعد ، ان کے لواحقین سے تاوان طلب کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ،سندھ میں کشمور، گھوٹکی اور شکارپور اضلاع کے کچے کا علاقہ ایک ٹرائی اینگل ہے، جہاں پر ڈاکوئوں کی متعدد محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں انجام دینے والے متعدد گروہ کے کارندے ان علاقوں میں سکونت پذیر ہیں جو کہ موبائل فون پر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نسوانی آواز میں لوگوں سے پیار کی باتیں کرکے انہیں جھوٹی محبت میں پھنساتے ہیں اور پھر ملاقات کے لئے اپنے پاس آنے کا کہتے ہیں۔ ڈاکوئوں کی جانب سے اختیار کیا جانے والا یہ طریقہ واردات اس قدر کامیاب ہے کہ پنجاب سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے متعدد افراد ان ڈاکوئوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جنہوں نے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہائی حاصل کی تھی۔ ڈاکوئوں کے یہ گروہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی انجام دہی کے لئے خواتین کا استعمال بھی کرتے ہیں، جب کہ موبائل فون ٹیکنالوجی کے ذریعے نسوانی آواز میں بھی لوگوں سے دلفریب باتیں کرکے پہلے انہیں اپنے جال میں پھنساتے ہیں، پھر انہیں ملاقات کے بہانے بلایا جاتا ہے۔ کشمور کندھکوٹ یا دیگر علاقے جو کچے کی جانب جاتے ہیں جب لوگ وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں سے میزبان کی جانب سے بھیجے جانے والے لوگ کسی گاڑی یا موٹر سائیکل کے ذریعے انتہائی اطمینان کے ساتھ اپنی کمین گاہ تک لے آتے ہیں۔ ’’ نامعلوم خاتون‘‘ کی محبت میں گرفتار ہو کر وہاں پہنچنے والے شخص کو احساس ہوجاتا ہے کہ وہ اب ڈاکوئوں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ ڈاکو اس کے اہل خانہ سے مختلف مقامات سے تاوان کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی وارداتوں کی مکمل بیخ کنی کو یقینی بنانے کے لئے پولیس نے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیںاوربڑی حد تک ضلع میں ایسی وارداتوں کا قلع قمع کیا گیا ہے۔

پولیس کے ضلعی سربراہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی ایسی انجان کال جوکسی لڑکی کی آواز میں ہواس سے بات یادوستی نہ کریں اور کہیں بھی کسی اجنبی شخص سے ملاقات کے لئے جانے سے قبل اپنے عزیز و اقارب کو ضرور بتائیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے منفی اثرات کے متعلق بھی آگاہ کریں۔ انہوں نے عوام خاص طور پر نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال ہر گز نہ کریں کسی مس کال پر جس سے وہ ناواقف ہوں، کال نہ کی جائے اور اگر کوئی رانگ نمبر کی کال موصول ہو جس میں کوئی خاتون بات کررہی ہو تو اس سے ملاقات سےگریز کیا جائے کہیں ایسانہ ہو کہ خاتون کی دلفریب آواز کے بعد اس کی دوستی میں پھنس کر وہ کسی اغوا کارگروہ یا ڈاکوئوں کے چنگل میں نہ پھنس جائے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین