سانحہ ساہیوال نے ایک بار پھر پولیس کی بنیادی تربیت اور اہلیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سندھ میں بھی اعلیٰ پولیس افسران پولیس کی تربیت میں انقلابی تبدیلیوں کی باتیں تو بہت کرتے ہیں تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔صوبے کے سب سے بڑے شہر اور ملک کے معاشی حب کراچی میں بھی پولیس کی پیشہ وارانہ تربیت کے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں ۔پولیس کی جانب سے کیے جانے والے مقابلوں پر عدالتیں بھی عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں جب کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں ،سول سوسائٹی اور پولیس کے اپنے سینئر تفتیشی افسران بھی اس پر سوالات اٹھا چکے ہیں۔جعلی مقابلے میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کا قتل ہو، ڈیفنس میں نوجوان، انتظار قتل کیس ہو ، شاہراہ فیصل پر مبینہ مقابلے میں رکشہ ڈرائیور مقصود کے قتل کا معاملہ ہو،معصوم بچی امل کا قتل ہو،کورنگی میں مبینہ مقابلے کے دوران فائرنگ سے میاں بیوی کے زخمی ہونے کا معاملہ ہو یا اس کے علاوہ دیگر معاملات ہوں یہ بات اب مکمل طور پر سامنے آ چکی ہے کہ پولیس کی ٹریننگ میں اب بھی کئی بنیادی نقائص موجود ہیں۔
گزشتہ دنوں بہادر آباد میں پولیس کے ہمراہ اپنے بچوں سے ملنے کے لیے آنے والے شخص نے پولیس کے سامنے ایک شخص کو گولیاں مار کر قتل کردیا ۔نیو ٹائون تھانے کی حددو شرف آباد مسجد کے قریب واقع توسو اپارٹمنٹ میں ڈیفنس کا رہائشی شخص 60 سالہ سہیل درخشاں پولیس کے ہمراہ منور علی نامی شخص کے گھر اپنے بچوں سے ملنے آیا تھا تاہم ملاقات کرتے ہی سہیل نے پستول نکال کر منور علی کو 4گولیاں مار کر قتل کر دیا۔واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم نے جب مقتول پر فائرنگ کی تو پولیس نے اسے روکنے میں بہت دیر کی۔اس واقعہ میں ملوث پولیس اہلکار ساؤتھ زون سے تعلق رکھتے ہیں اور اس زون کے ڈی آئی جی شرجیل کھرل اس سے قبل ڈی آئی جی ٹریننگ کے عہدے پرخدمات انجام دےچکے ہیں ۔ان کے ماتحت پولیس اہل کار بھی تربیت کے بنیادی اصولوں پر پورا نہ اتر سکے۔سی سی ٹی وی میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ملزم سہیل نے مقتول منور علی کو گولیاں ماریں تو اسے روکنے کے لیئے درخشاں تھانے کے پولیس اہل کاروں نےجن میں ایک ایڈیشنل ایس ایچ او بھی شامل تھا،اس تیزی اور مستعدی کا مظاہرہ نہیں کیا جس طرح انہیں کرنا چاہیے تھا۔منور کے زخمی ہونے کے بعد بھی پولیس اہل کار اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کرنے کے بجائے تھانے لے گئے۔فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب مقتول کو موبائل میں ڈال کر لے جایا گیا تو اسکی ٹانگیں موبائل سے نیچے لٹک رہی تھیں،دوسری جانب پولیس جب ملزم کولے کر وہاں آئی تو اسکی جامہ تلاشی بھی نہیں لی گئی جس کی وجہ سے وہ پستول وہاں تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔
20 جنوری کو کورنگی کے علاقے میں پولیس اور ملزمان کے درمیان مبینہ مقابلے میں رکشہ میں سوار میاں بیوی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔پولیس اہلکاروں کی جانب سے اس واقعہ میں بھی بنیادی ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی۔ڈیفنس میں گزشتہ برس اے سی ایل سی اہل کاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظار قتل کیس میں جے آئی ٹی نے واقعہ کو "کولڈ بلڈڈ مرڈر"قرار دیا تھا۔رپورٹ میں سابق ایس ایس پی، اے سی ایل سی مقدس حیدر کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کی گئی تھی تاہم اسی روز انھیں اے آئی جی فرانزک ڈویژن کا چارج بھی دے دیا گیاجب کہ آج کل وہ ایس ایس پی سٹی کے عہدے پر براجمان ہیں۔واقعہ کے فوری بعد تمام پولیس پارٹی موقع سے بھاگ گئی تھی اور وہ تمام لوگ سادہ لباس میں ملبوس تھے جو ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے ۔انتظار کے والد اشفاق احمد نے گزشتہ دنوںمقتول کی پہلی برسی کے موقع پر اپنے وکیل کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیس کے تفتیشی افسر پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نےکہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے یہ تو کہہ دیا کہ قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا لیکن قتل کے محرکات کا ایک برس بعد تک بھی پتہ نہیں لگایا جاسکا ۔مجھے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں جے آئی ٹی کے ہر اجلاس میں بلایا جائے گا لیکن محض 2 مرتبہ بلایا گیا۔ میرے بیٹے کی دوست ماہ رخ کے والد سہیل حمید نے جے آئی ٹی کو جھوٹا بیان دیا ، ایک برس بعد گرفتار ہونے والے ملزم طارق رحیم نے اپنے بیان میں کہا کہ ایس ایس پی کا آرڈر تھا تو اس کا ریمانڈ حاصل کیا جائے اور واقعہ کی اصل تہہ تک پہنچا جائے ۔ اب سے ایک برس قبل میں اپنے بیٹے کی منگنی کے بارے میں سوچ رہا تھا ، ان دنوں پروگرام بن رہے تھے لیکن ظالمو نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ۔ اس موقع پر ان کے وکیل نے کہا کہ اس تمام تر واقعے میں پولیس کی مجرمانہ غفلت ثابت ہورہی ہے ، جس طرح انھوں نے پرہجوم مقام پر 18 گولیاں چلائیں ، آپریشن سے قبل متعلقہ تھانے کو مطلع نہیں کیا اور واقعہ کے فوری بعد وہاں سے تمام اہل کار غائب ہوگئے ، جس طرح انتظار کی گاڑی کو ہر جانب سے گھیرا گیا تو اس میں کوئی بھی شخص ہو وہ گھبرا جائے گا ۔ گاڑی میں موجود مدیحہ کا بھی وہاں سے بھاگ جانا کئی شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے ۔ انہوں نےمزید کہا کہ ملزمان بھی پولیس اہل کار ہیں اور تفتیش کرنے والے بھی پولیس اہل کار،۔ ہمیں انصاف چاہیے ، ہم اس سلسلے میں اعلیٰ عدلیہ تک جائیں گے ۔ تفتیشی افسر کیس میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہا ہے ، ہمیں اس پر تحفظات ہیں ، اس کے وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ پیش ہوا اور وارنٹ سے ہی لاعلمی کا اظہار کردیا۔، ہم کیس کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں اور انصاف کے حصول کے لیے ہر حد تک جائیں گے ۔
جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیےجانے والے نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان نے کہا ہے کہ جس طرح کا سلوک بطور ملزم (ریٹائرڈ ایس ایس پی) رائو انوار کے ساتھ کیا جارہا ہے اس سے مایوسی ہورہی ہے لیکن ہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے ۔ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آخری سانس تک بیٹے کے لیے انصاف کی جدوجہد کرتے رہیں گے ، نقیب صرف میرا نہیں پوری قوم کا بیٹا ہے۔، یہ بات انھوں نے نقیب اللہ محسود کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ، 13جنوری کو نقیب کی پہلی برسی منائی گئی ، اس سلسلے میں سہراب گوٹھ علی ٹائون میں تقریب منعقد کی گئی جس میں نقیب اللہ محسودکے والد محمد خان ، پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سیف اللہ محسود ، عالمگیر خان محسود ، سماجی رہنما جبران ناصر ، نقیب کے عزیز و اقارب ، عمائدین اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، اس موقع پر قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی بھی کی گئی ، فاتحہ خوانی کے بعد نقیب کے والد محمد خان نے کہا کہ ہم نقیب کے لیے کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ، ہم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا لیکن جس طرح کا سلوک پولیس و حکومت کی جانب سے رائو انوار کے ساتھ کیا جارہا ہے اس سے مایوسی ہوتی ہے ، جب یہ واقعہ پیش آیا تھا اس کے بعد عدلیہ ، فوج ، عمران خان جوکہ اس وقت وزیراعظم نہیں تھے اور دیگر سیاستدانوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا لیکن اب تک کیس منطقی انجام کو نہیں پہنچا یا گیا۔ ہم کسی صورت میںکیس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ،ہم احتجاج کا راستہ بھی اختیار کریں گے لیکن سڑکیں بند کرکے عوام کو مشکلات میں نہیں ڈالیں گے ، انصاف کے حصول کے لیے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تمام تر اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انھیں اس کیس میں انصاف فراہم کیا جائے ۔ اس موقع پر سماجی رہنما جبران ناصر نے رائو انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نہ نکالنے پر اظہار تشکر بھی کیا ۔ انھوں نےکہا کہ کیس میں باقی ملزمان کو بھی گرفتار کیا جائے اور جو ملزمان ضمانت پر ہیں ان کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے انھیں بھی گرفتار کیا جائے ، کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں ، کبھی تفتیشی افسر تو کبھی ملزمان کے وکلا عدالت سے غائب ہوجاتے ہیں ، اس ایک سال کے دوران ہم نے سیاستدانوں ، صحافیوں سمیت کئی افراد حتیٰ کہ لاشوں کو ہتھکڑی لگے دیکھا لیکن رائو انوار کو ایک مرتبہ بھی ہتھکڑی لگا کر پیش نہیں کیا گیا ۔
ڈیفنس میں پولیس اہل کاروں کی فائرنگ سے معصوم بچی ایمل بھی جان گنوا چکی ہے ۔اس سے قبل بھی رضویہ کے علاقے میں پولیس اہل کار ملزمان کو پکڑنے کے لیے مسافربس پر فائرنگ کر چکے ہیں ۔ شاہراہ فیصل پر ملزمان کو پکڑنے کے لیے اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا رکشہ ڈرائیور مقصود بھی پولیس اہل کاروں کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہے۔واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے نہ آتی تو کبھی پولیس اہل کاروں کے اس جرم کا پردہ چاک نہ ہوتا ۔
اعلیٰ پولیس حکام ورکشاپس اور میٹنگز میں بیٹھ کر ٹریننگ میں آنے والی "انقلابی تبدیلیوں"کے دعوے تو بہت کرتے ہیں تاہم پولیس اہل کاروں کی اکثریت کسی جگہ چھاپہ مارنے کے بنیادی ایس او پیز سے بھی واقف نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے اہلکاروں کے لیے اصلاحی پروگرامز منعقد کیے جائیں۔ ان کی تربیت کے ساتھ پرانے پولیس افسران اور اہل کاروں کی تربیت کے لیے مستقل بنیادوں پر کورسز کروائے جائیں۔ پولیس افسران ٹریننگ سینٹرز میں جا کر ان افسران اور اہلکاروں کو تربیت کے بنیادی خدو خال بتائیں بصورت دیگر اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور شہری قانون کے محافظوں کے ہاتھوں ہی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔