غلام عباس، بھنبھرو،خیرپور
بلوچستان اور بالائی سندھ میں غیرت کے نام پر قتل و غارت گری کی رسم صدیوں پرانی ہے ۔جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں بھی کاروکاری (غیرت) کے نام پر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کا خون بہایا جا تا ہے لیکن پنجاب میں بالائی سندھ اور بلوچستان کے مقابلے میں اس طرح کے واقعات کم ہی رونما ہو تے ہیں۔ بلوچستان میںغیرت کے نام پر قتل کو ’’سیاہ کاری‘‘ ، سندھ میں’’ کاروکاری‘‘، پنجاب میں’’کالا کالی‘‘ اور خیبرپختون خواہ میں ’’طور طورہ‘‘ کے نام سے مشہور، یہ رسم عرصہ دراز سے جاری ہے اور اب تک سیکڑوںخواتین اس رسم کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہیں ۔کاروکاری میں قبیلے یا خاندان کے سرکردہ افراد ایک جرگے کی صورت میںجمع ہوکرکسی بھی بے گناہ مرد یا عورت کو کاری قرار دے کرکے اس کے قتل کا فیصلہ صادر کرتے ہیں، جس کے بعد اسے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات انہی کے خاندان کا کوئی فردغیرت کے نام پر ’’سوموٹو نوٹس ‘‘ لے کر، کسی جرگے کے فیصلے کےبغیر بھی ’’گناہ گاروں‘‘ کوقتل کردیتا ہے۔
کاروکاری یاغیرت کے نام پر قتل کا حالیہ واقعہ یکم فر وری، کو خیر پور میں پیش آیا، جس میں ووسان وسان قبیلے کے ایک شخص نے شادی سے انکار کرنے پر مبینہ طور پر غیرت کے نام پرفائرنگ کرکے نو عمر طالبہ رمشنا وسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔قتل کی اس لرزہ خیز واردات میں سندھ کے ایک بااثرسیاسی خانوادے کے فرد کامرکزی کردار ہونے کی وجہ سےکاروکاری کا یہ واقعہ ،’’ ہائی پروفائل‘‘ کیس بن گیا جس کی باز گشت سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی سنائی دی۔ بالائی سندھ کے علاقےخیرپور کی تحصیل کوٹ ڈیجی کے گوٹھ پیر گڈو میں ساتویں جماعت کی 13سالہ طالبہ رمشا وسان کے بہیمانہ قتل کے واقعے سے متعلق جو کہانی سامنے آئی ہے اس کے مطابق پانچ مسلح افراد ،نوعمرطالبہ رمشا وسان کے گھر میں داخل ہوئے۔ ملزمان نے رمشا کی والدہ مسماۃ خورشید بیگم کے سامنے رمشا پر فائرنگ کرکے اسے بے دردی سے قتل کردیا۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ اس کی وجہ سے پورےعلاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔ واقعے کی ایف آئی آرسرکار کی مدعیت میں درج کرائی گئی، جس کے متعلق ،ایس ایس پی عمر طفیل کا کہنا ہے کہ ریاست کی جانب سے یہ ایف آئی آر اس لیے درج کرائی گئی ہےتاکہ با اثر شخصیات کی جانب سےمقتولہ کے والدین پرکسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے۔سب انسپکٹرمنظور شیخ کی مدعیت میں دائر ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ وقوعے کے روز،پولیس پارٹی گشت پر تھی کہ انھیں اطلاع ملی کہ ملزم ذوالفقار وسان، کارو کاری کے الزام میں رمشا کو قتل کرنےکے لیے جا رہا ہے۔اطلاع ملنے پرجب وہ پولیس پارٹی کولے کر حاجی نواب وسان گاؤں کے قریب پہنچے تو انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ پولیس جس وقت گھر میں داخل ہوئی تو وہاںعورتیں بین کررہی تھیںجب کہ ایک لڑکی کی لاش چارپائی پر پڑی تھی۔ وہاں موجودرمشا کی والدہ خورشید زوجہ پرویز وسان نے بتایا کہ ملزم ذوالفقار وسان نے ساتھیوں کے ہمراہ فائرنگ کرکے اس کی بیٹی کوہلاک کیا ہے۔ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ رمشا کو نو گولیاں ماری گئیں جو سینے، اور دونوں بازؤں سمیت جسم کے مختلف حصوں میں پیوست ہوگئیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے 30 بور پستول کے 10 خول برآمد کیے۔
پیر گڈو گاؤں سابق صوبائی وزیر منظور حسین وسان، سابق رکن قومی اسمبلی نواب خان وسان، ایم پی اے منور علی وسان اور چیئرمین ضلع کونسل شہریار وسان کا آبائی گاؤں ہے۔ ان کے گاؤں میں طالبہ رمشا وسان کے کاروکاری کے تحت قتل کے واقعے کو اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے ہائی پروفائل کیس کے طور پر اجاگر کیاجس کے بعد کراچی ،حیدرآباد ،اسلام آباد، خیرپور اور سندھ بھر کے دیگر علاقوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرے کئے جب کہ پیپلزپارٹی شہید بھٹو ،جسقم، ایس یو پی ،یوتھ ایکشن کمیٹی ،ناری تحریک ، سندھیانی تحریک اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں کی طرف سے مرکزی ملزم کی عدم گرفتاری پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔بے گناہ بچی کی ہلاکت کے خلاف سندھ اسمبلی میںتحریک انصاف اور فنکشنل مسلم لیگ سمیت دیگرارکان اسمبلی نے بھی طالبہ رمشا وسان کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ اسمبلی کے اجلاس کے دوران فنکشنل مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے اراکین نے رمشا وسان کےبہیمانہ قتل کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی، جس کی اجازت نہ ملنے پرانہوں نےسخت احتجاج کیا۔حکومتی نشست سے منور وسان کی جانب سے سخت لہجہ استعمال کرنے پر ایوان مچھلی بازار بن گیا۔بعد ازاں اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سمیت دیگر اراکین نے بھی مذکورہ واقعے کی مذمت کی جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایس ایس پی خیرپور کو فون کر کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔
انسان دوست اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں کے انعقاداور واقعہ سندھ اسمبلی تک پہنچنےکے بعد،پولیس پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے خاصا دباؤبڑھ گیا جس پر پولیس فورس نےفوری طور سےقاتلوں کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں شروع کیں۔ ملزمان اور ان کے رشتے داروں دوستوں و تعلق داروں کے ٹیلیفون ٹریس کر کے 15سے زائد افراد گرفتارکو حراست میں لیا گیا ۔ابتدائی کارروائی کے دوران پولیس نے ملزمان کے کچھ سہولت کار بھی پکڑے جن میں نواب وسان کا خانساماں امتیاز وسان بھی شامل تھا، جس کے بعد ذوالفقار وسان کی گرفتاری عمل میں آئی۔
خیرپور پولیس کے مطابق 13 سالہ طالبہ رمشا وسان قتل کیس کے مرکزی ملزم ذوالفقار وسان نے پانچ روز بعدایک بااثر سیاستدان کی وساطت سے گرفتاری پیش کی۔6فروری کو اسے کوٹ ڈیجی کی سول عدالت میں پیش کیا گیا جہاں تین روزکے ریمانڈ پر اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ مذکورہ قتل کے تین ملزمان مفرور ہیں۔ذوالفقار وسان6؍افراد کے قتل سمیت 22مقدمات میں مطلوب تھا۔ اس کے خلاف قتل، ڈکیتی اوراغواکے علاوہ اس سے قبل بھی غیرت کے نام پر قتل کے تین مقدمات میں ملوث تھا مگر اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی تھی۔رمشا کے قتل کا مقدمہ پانچ ملزمان کے خلاف درج کرایا گیا تھا جب کہ مرکزی ملزم عبدالغفار وسان کو پہلے ہی گرفتار کیام جاچکا ہے جسے خصوصی عدالت نے سات روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
ذوالفقار وسان کی گرفتاری کے بعد ایس ایس پی عمر طفیل نے اے ایس پی ڈاکٹر محمد عمران کے ہمراہ ہنگامی پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ مسلسل چھاپہ مارکارروائیاں کر کے رمشا وسان کے قتل کے واقعے کے مرکزی ملزم ذوالفقار وسان کو گرفتا رکیاگیا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس پانچ روز تک علاقے کا محاصرہ کئے ہوئے تھی جس کی وجہ سے ذوالفقار وسان کو گرفتارکرنے میں کامیابی ہوئی۔ ایس ایس پی عمر طفیل کا کہنا تھا کہ ملزم کافی عرصے سےپولیس کو مطلوب تھا ۔انہوں نےبتایا کہ ملزم ذوالفقار عرف ذلفو وسان نے 2012ء میں کوٹ ڈیجی کے قریب جاوید جسکانی اور مسماۃ بابرا وسان کو کاروکاری کے تحت قتل کیا جبکہ 2013ء میں ملزم نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کے ملازم محمد امیر تمرانی کو بس سے اتار کر کلاشن کوف کا برسٹ مارکر قتل کیاتھا ۔ایس ایس پی عمر طفیل کے مطابق ملزم ذوالفقار وسان نے عبد الوہاب موریجو کو خیر پور میں پولنگ اسٹیشن پر فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ ملزم نے 2013 کے انتخابات میں فنکشنل لیگ کی ریلی پر راکٹ لانچر سے حملہ بھی کیا تھا جس میں عبد الستار شنبانی جاں بحق ہوئے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ملزم کو قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔دریں اثناء رمشا وسان کے قتل کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کے رہنماؤں نے احتجاج کے دوران اپنی تقریروں میں مطالبہ کیا کہ کاروکاری کے تحت قتل و غارت گری کے واقعات کو روک تھام کے لیے سخت ترین قوانین بنانا ہو ں گے۔ مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کاروکاری کے مقدمات چلانے کے لیے علیحدہ سے خصوصی عدالتیں قائم کر کے اس طرح کے مقدمات کے فیصلے تین ماہ کے اندر سنائے جائیں۔ ایسا کرنے سے کاروکاری کے تحت قتل کے واقعات میں خاصی حد تک کمی ہوجائے گی۔