کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے اچانک افق سیاست پر اس طرح نمودار ہوئے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں’’خبروں کی بہار‘‘ آگئی۔ ہر طرف’’بریکنگ نیوز‘‘ چل رہی تھیں اور چینلز ایک دوسرے کا مقابلہ کررہے تھے۔ دو ڈھائی گھنٹہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے پریس کانفرنس کی، پھوٹ پھوٹ کر روئے اور ایم کیو ایم کے قائد پر’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے، قتل و غارت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔ ایم کیو ایم نے تمام الزامات مسترد کردئیے اور فاروق ستار کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ’’مائنس ون‘‘ فارمولا کی سازش ہے۔ کچھ لوگ الطاف حسین کو پارٹی سے الگ کرنا چاہتے ہیں جہاں تک الطاف حسین پر الزامات کا تعلق ہے تو اس سے زیادہ سنگین الزام ماضی میں لگائے جاچکے ہیں۔ علیحدہ ملک’’جناح پور‘‘ بنانے کی بات بھی کی گئی اور کراچی میں ٹارچر سیل بھی ملے جہاں مقتدر ادارہ کے ایک افسر کو ٹارچر کرکے قتل کرنے کا الزام بھی تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی کے چیئرمین عظیم طارق کو قتل کرواگیا اور اب ڈاکٹر عمر فاروق کے قتل کی تفتیش کی جارہی ہے۔ جہاں تک’’مائنس ون‘‘ فارمولے کی بات ہے تو ایم کیو ایم ہی نہیں ماضی میں دوسری جماعتوں میں اس حوالے سے توڑ پھوڑ کی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب محترمہ بینظیر بھٹو پارٹی کی قیادت کررہی تھیں تو مصطفیٰ کھر نے ان سے ملاقات کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ کسی مرد کو پارٹی سربراہ بنادیں اور ورکرز کنونشن کرکے پارٹی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ مولانا کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلز پارٹی بنائی۔ بھٹو کے قریبی ساتھی حنیف رامے نے مساوات پارٹی بنائی اور جب جنرل ضیاء الحق کو امریکہ دورہ کی دعوت دی گئی تو کہا گیا کہ وہ کوئی سویلین وزیر اعظم بنالیں اور انہیں ساتھ لے جائیں اس سے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ اس وقت لاہور میں ملک محمد علی (داتا صاحب کی دودھ کی سبیل والے) کی اقامت گاہ پر ایک ورکرز کنونشن منعقد ہوا جس میں غلام مصطفیٰ جتوئی کی پارٹی صدر اور پارٹی کا نام نیشنل پیپلز پارٹی رکھا گیا۔ اس وقت وزیر اعظم جتوئی کی تقریب حلف برداری کی تاریخ کا بھی تعین کردیا گیا۔ مخدوم حامد رضا گیلانی راوی ہیں کہ جتوئی صاحب کو باقاعدہ اس فیصلے سے آگاہ بھی کردیا گیا تھا۔ ملک غلام مصطفیٰ کو جو لندن میں تھے وطن واپس پہنچ گئے اور جناب رامے نے یہ دیکھ کر کہ کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے مساوات پارٹی کو این پی پی میں ضم کردیا۔ یہ ضرور ہوا کہ بھٹو صاحب کے چند قریبی ساتھی پیپلز پارٹی چھوڑ گئے لیکن بینظیر بھٹو کی ’’عوامی گرفت‘‘ کم نہ ہوئی۔
مشرف دور میں2002کے انتخابات کے موقع پر جب محترمہ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں جنرل مشرف ان کی پارٹی کی رجسٹریشن مسترد نہ کردے تو انہوں نے خود ’’پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین‘‘ بنائی۔ مخدوم امین فہیم اس کے صدر اور راجہ پرویز اشرف سیکرٹری جنرل بنائے گئے۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے منتخب قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان اس پارٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ کہ مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد آصف علی زرداری پی پی پارلیمنٹرین کے سربراہ منتخب ہوگئے۔ باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو الیکشن کمیشن میں رجسٹر کرایا جائے گا اور2018میں یہ پارٹی عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ مسلم لیگ پہلے بھی’’دھرے بندی‘‘ سے دو چار رہی ہے،مسلم لیگ قائد اعظم صوبہ پنجاب میں پانچ سال برسراقتدار رہی۔ مرکز میں نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی ملا لیکن ان کا ’’ووٹ بنک‘‘ اس طرح قائم نہ ہوسکا جیسا کہ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم سے منسوب ہے۔ مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) میں بھی پارٹی قائد کو مائنس کرنے کی سازش کی گئی اور تجویز دی گئی کہ میاں نواز شریف پارٹی صدارت سے’’اسٹیپ ڈائون‘‘ ہوجائیں تو معاملات طے کئے جاسکتے ہیں ۔ جدہ میں میاں نواز شریف نے راقم الحروف کو اس حوالے سے بتایا کہ جب کراچی ٹریبونل میں ان کا ٹرائل ہورہا تھا تو ان کے ایک قریبی ساتھی یہ تجویز لے کر ان کے پاس ا ٓئے تھے۔ مرحوم ضیاء الحق کے دور میں حکومتی اشیرباد سے سیاسی جماعتوں میں انتشار پیدا کیا گیا۔ جمعیت علماء پاکستان، پاکستان خصوصاً سندھ اور کراچی میں بڑی مضبوط پارٹی تھی۔ جماعت اسلامی کا تو میئر ہوا کرتا تھا ضیاء الحق نے ان دونوں جماعتوں پر ضرب لگائی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے پاس اس وقت انٹیلی جنس چیف مسرور احسن کو یہ پیغام دے کر بھیجا گیا کہ ’’مولانا آپ ملک سے باہر چلے جائیں، ورنہ صدر مملکت آپ کی جماعت کو دو حصوں میں تقسیم کردیں گے‘‘ اور وہی ہوا۔ مولانا عبدالستار نیازی نے مولانا نورانی سے بغاوت کرکے جمعیت کا الگ گروپ بنالیا۔ اسی زمانہ میں یہ کہا گیا کہ ایم کیو ایم کو بھی حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔ غوث علی شاہ جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس حوالے سے بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ الطاف حسین کی ایک دور میں بڑی دہشت تھی۔ اس وقت ایم کیو ایم توڑنے کی کوششیں کی گئی اور حقیقی کے نام سے آفاق احمد اوران کے ساتھیوں نے الگ ایم کیو ایم بنائی۔ ان کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوئے، آفاق احمد کو جیل بھی کاٹنی پڑی۔ فاروق ستار نے جس خدشہ کا اظہار کیا ہے اس میں کتنی حقیقت ہے کیا مصطفیٰ کمال ایسا قدرآور لیڈر ہے جو الطاف حسین کا متبادل ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں پیش گوئی بہت قبل از وقت ہوگی۔ ابھی تو یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس سارے کھیل تماشے کا پس منظر کیا ہے۔ ایسا کرکے کیا مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں تاہم یہ ضرور ہوا ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم نے یکجہتی کے نام پر مظاہرے شروع کردئیے ہیں جس سے کراچی میں رینجرز اور پولیس نے امن قائم کرنے کی جو کوششیں کیں ہیں وہ متاثر ہوسکتی ہیں۔ بعض سیاسی قائدین کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر بھارتی ایجنٹ ، قتل و غارت گرد، منی لانڈرنگ کے جو الزام عائد کئے گئے ہیں ان کی تحقیقات کرائی جائے اور ایسا کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے، اگر مصطفیٰ کمال کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ اسے عدالت میں پیش کرے۔ بیانات اور الزامات سے سیاسی فضا اور مکدر ہوگی۔
کسی چیز کی ایک حد ہوتی ہے ایم کیو ایم ہی نہیں کسی اور سیاسی جماعت پر ایسے الزامات ہیں تو ان کی بھی عدالتی تحقیقات کرائی جائے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں، اگر جمہوری ادارے مستحکم ہورہے ہیں تو ان کی آبیاری ’’اچھی جمہوری‘‘ روایات قائم کرکے کی جاسکتی ہے۔ کسی لیڈر کی چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی ’’کردار کشی‘‘ زیب نہیں دیتی اور یہی جمہوری روایت ہے اس کی اجازت دی جاسکتی ہے یہ تو وہ نظام ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کو ایک گاڑی کے دوپہیہ قرار دیا گیا ہے۔