• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے ماہ و سال سے مغلوب ہوگیا تھا۔ میرے احباب، میری تحریر سے دل گرفتہ ہوگئے۔ صبح دم دور دراز مقامات سے فون، ایس ایم ایس اور وٹس ایپ۔ ایک جملہ مجھ سے ارتجالاً سر زد ہوگیا۔ لیکن یہ ڈاکٹر سید جعفر احمد جیسے ثقہ محقق کو بھی پسند آگیا۔ ’’تم اپنے 72سال کو خطّے کی صدیوں سے لڑواتے رہے‘‘ اب میں خود اس جملے کی تشکیل پر حیرت زدہ ہوں۔ ہم 1947سے اسی کشمکش میں تو ہیں۔ صدیوں کو اپنا کر مالا مال ہونے کی بجائے ہم ان کو عاق کر کے مفلس ہو رہے ہیں۔

آپ سن رہے ہیں نا۔ ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ ٹی وی سے نظریں ہٹا کر یہ سطور پڑھیں تو یہ دل میں اُتریں گی۔ کسی بھی سر زمین میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں گزشتہ صدیاں پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ ماں باپ یہ اثاثہ منتقل کرتے ہیں۔ پھر جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے یہ صدیاں اس کے شعور میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ وہ جس چیز کو بھی پہلی بار دیکھتا ہے اس کے نقطۂ نظر میں بھی یہ صدیاں اپنا عکس ڈال رہی ہوتی ہیں۔ بڑے میڈیا نے پاکستان بلکہ دُنیا کو صرف اسلام آباد تک محدود کر رکھا ہے۔ چینلوں کی 80فیصد بریکنگ نیوز اسلام آباد سے ہوتی ہیں۔ اخبارات کی شہ سرخیاں مہینے میں کم از کم 20دن اسلام آباد کی ڈیٹ لائن سے ہوتی ہیں۔ ملک میں 22کروڑ انسان بستے ہیں۔ ان میں سے کم از کم ایک لاکھ تو روزانہ ایسے کام کرتے ہوں گے جنہیں خبر کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ہماری نظر صرف وزیراعظم، وزراء اور اپوزیشن لیڈر تک محدود ہے۔ قوم کو پتا نہیں چلتا گوادر میں کیا ہورہا ہے۔ چاغی کے کیا مسائل ہیں۔ قلات میں پانی مل رہا ہے یا نہیں۔ قصور کی میتھی سے کوئی علاج ہوسکتا ہے۔ کوہاٹ کی گلیوں میں خلق خدا کیسے زندگی بسر کر رہی ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ دوسرے شہر اگر خبروں میں آتے ہیں تو صرف کسی حادثے، پولیس مقابلے، باپ کی بیٹی سے زیادتی یا بہو کو زندہ جلادینے کے جرائم سے۔

سمجھنے والوں کو اشارہ ہی کافی ہے۔ اب تک مورخین یہی زاویۂ فکر اختیار کر رہے ہیں اس لئے نسل در نسل بے خبررہی ہے۔ اتنے بڑے رقبے کو جب آپ صرف دارُالحکومت تک اور کروڑوں انسانوں کو صرف حکمرانوں تک سمیٹ دیتے ہیں تو تاریخ بھی مسخ ہوتی ہے اور حقائق بھی گرد و غبار میں دبے رہتے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ قوم خود اپنے بارے میں بے خبر رہتی ہے۔ یونیورسٹیاں بھی زحمت نہیں کرتیں کہ وہ یہ تحقیق کریں کہ پاکستانی ذہن کی ساخت کیسے ہوتی ہے۔ صدیوں سے ایک ہی شکل میں قائم ملکوں میں تو ذہنوں کی ساخت یکساں ہوسکتی ہے۔ جیسے جاپان، چین، ترکی، مصر اور بھارت لیکن امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اسرائیل اور پاکستان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں مختلف خطوں سے تارکین وطن آرہے ہیں۔ الگ الگ ذہنی پس منظر لئےہوئے۔ ان ممالک نے اپنے سسٹم ایسے طاقت ور بنا رکھے ہیں کہ ذہنی ساخت کے تضادات انتشار برپا نہیں کرتے۔ قوانین بہت سوچ سمجھ کر تحقیق کے بعد بنائے جاتے ہیں۔ پھر ان پر عملدرآمد بہت سختی سے ہوتا ہے۔ پاکستانی زمین صدیوں پرانی ہے۔ نام نیا ہے۔ اس میں موجود وحدتیں اپنا اپنا طویل تاریخی، تہذیبی، ثقافتی پس منظر رکھتی ہیں۔ ایک بڑی تعداد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اپنی تہذیبی روایات لے کر آئی ہے۔ہمارا سسٹم سوچ سمجھ کر نہیں بنایا گیا اس پر عملدرآمد بھی ہو نہیں پاتا۔ علاقائی روایات اور رسمیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ ہر روز ہی یہ ٹکرائو ہوتا ہے۔ امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا نے ثقافتوں کی کثرت کو اپنے تنوع کی بنیاد قرار دیا ہے اور بالآخر ایک ثقافت میں ڈھلنے کا عمل جاری ہے۔ ہمارے ہاں قبائلی ذہنیت کا غلبہ ہے۔ مختلف ثقافتوں کو اپنی دولت سمجھنے کی بجائے ہم ان پر اپنی مرضی کا تمدن غالب کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پھر لسانی تعصبات جنم لیتے ہیں۔ بنیاد پرستی اور شدت پسندی ذہنوں کو گھیر لیتی ہے۔

پاکستان سب کی شناخت ہونا چاہئے لیکن اس کے لئے دارُالحکومت میں بیٹھی قیادتوں کو بہت سنجیدگی سے ان سوالات کے جوابات دینا ہوں گے جو ایک بلوچ کے ذہن میں تڑپتے ہیں، ایک سرائیکی کے دماغ میں گونجتے ہیں، ایک پنجابی کے سمندروں ڈونگے دل دریا میں موجزن ہیں، ایک سندھی کے ذہن کے ریگ زار میں چمکتے ہیں، ایک پشتون کے مزاج میں طوفان برپا رکھتے ہیں، ایک کشمیری کی لائن آف کنٹرول پر خیمہ زن ہیں، ایک گلگتی کی سوچ میں زلزلے لاتے رہتے ہیں اور فاٹا والوں کے دل و دماغ میں جرگہ بلائے رکھتے ہیں۔

کوئی لیڈر، کوئی اسکالر، کوئی آمر کبھی اس حقیقت پر بھی غور کرتا ہے کہ ان 72سالوں میں المیے زیادہ برپا ہوئے ہیں۔ ایسے اندوہناک واقعات جو دلوں کو زخم زخم کردیتے ہیں۔ ایسے کارنامے بہت کم ہیں۔ جن کی شادمانی روح کی گہرائی تک اُتری ہو۔ ایک سال بعد قائداعظم کا انتقال، پہلے وزیراعظم کا قتل، بلوچ سردار نو روز زہری کی سزائے موت، مشرقی پاکستان کا المیہ، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا کی طیارے کے حادثے میں موت۔ دہشت گردی کی خوفناک وارداتوں میں ہزاروں خاندان اُجڑے ہیں۔ کتنے یتیم، کتنی بیوائیں، کتنے معذور۔ لسانی، نسلی، فرقہ ورانہ جھڑپوں میں بھی سینکڑوں گھرانے برباد ہوئے ہیں۔ ملک میں مختلف ناموں سے جتنے آپریشن ہوئے ہیں فاٹا میں، کراچی میں، بلوچستان میں، ان میں بھی ہزاروں گھروں نے قربانیاں دی ہیں۔ یہ سارے المناک واقعات ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

جب ہم پانی کی قلت کی بات کرتے ہیں تو ذہن یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم پانی کے ذخیرے تعمیر کرنے میں ناکام رہے۔ جب ہم کشمیریوں پر مظالم پر ماتم کرتے ہیں تو ذہن کو قائل کرتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کو آزادی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔ میرا نواسہ بار بار مجھ سے کہتا ہے کہ ہم آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کو کیوں نہیں بچا سکے۔ میں تو شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ وہ اپنی کم سنی سے یہ قلق لے کر چلے گا۔ کسی فخر کے ساتھ جوان نہیں ہو گا۔ یہی اس پوری قوم کا بھی حال ہے۔ اتنے المیوں، نوحوں، دکھوں کو ذہن میں لے کر پلنے والی نسلوں کو غمگساری کی ضرورت ہے۔

اب آپ روز اربوں کی لوٹ مار کا ذکر کر کے قوم کو سرکاری خزانہ لٹنے کے غم میں بھی مبتلا کردیتے ہیں۔ زندگی کی آسانیاں نہ ملنے کا تردد تو روز ہی ہوتا ہے۔ یہ سب خلشیں اور ناکامیاں ذہن کو کتنا متاثر کرتی ہیں۔ ایسے ذہن زیادہ الجھے رہتے ہیں۔ رونے کے لئے کندھے تلاش کرتے ہیں۔ آزادانہ سوچنے کی صلاحیتیں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔ہماری قیادتیں تو اپنے اپنے حلقے کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکتیں۔ ہماری یونیورسٹیوں کےاساتذہ کو چاہئے کہ وہ مختلف علاقوں کی روایات اور اندازِ فکر کو سامنے رکھتے ہوئے، مختلف ثقافتوں کو اللہ کی نعمت خیال کرتے ہوئے ایک امتزاج تشکیل دینے کی کوشش کریں جو سب کو قابل قبول ہو۔ یہ کوئی خیال نہ کرے کہ اس پر اسلام آباد مسلط کیا جارہا ہے۔

تازہ ترین