• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کی تاریخ ہمسایہ ممالک میں تخریب کاری سے بھری پڑی ہے۔ اس کی قیادت جنوبی ایشیا میں بالادستی کے خواب دیکھتی رہی، چنانچہ بھارتی دماغوں نے ایک ڈاکٹرائن ایجاد کی کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک کسی ایسے ملک سے مالی اور فوجی امداد حاصل نہیں کر سکیں گے جو بھارت کا مخالف ہو۔ اِس ڈاکٹرائن کے مطابق بھارت نے آس پاس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کو اپنا شعار بنا لیا اور فوجی طاقت کے زور پر بعض چھوٹے ممالک اپنے اندر ضم کر لیے اور بعض کو اپنا طفیلی بنا لیا۔ سب سے پہلے سکم کی آزادی سلب کی۔ ’را‘ تبت اور سری لنکا میں تین عشروں تک پراکسی وار لڑتی رہی۔ مالدیپ کو آنکھیں دکھا کر سرنگوں کر لیا اور نیپال کو تمام علاقوں سے کاٹ دیا۔ بھارت اپنی بالادستی کی راہ میں پاکستان کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اسے یہ بھی شدید قلق ہے کہ مسلمان آئینی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہندوستان کا ایک قطعہ کاٹ لینے اور اپنا جداگانہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ زخم اِس قدر گہرا ہے کہ وہ مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ عداوت کے منفی جذبات کے باعث رستا رہتا ہے۔ اِسی مائنڈ سیٹ سے اس نے پاکستان سے چار جنگیں لڑی ہیں اور اس کا شیرازہ بکھیر دینے کے لیے ’را‘ ہر آن متحرک رہتی ہے۔

بھارت کی 1971ء میں فوجی مداخلت اور سالہاسال کی تخریب کاری کے نتیجے میں ’سقوطِ ڈھاکہ‘ کا سانحہ پیش آیا اور وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے مسلمانوں سے اپنی ایک ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ’را‘ نے ’نئے پاکستان‘ میں تخریبی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔ نفرت کے بیج بونے اور علیحدگی کے جذبات کو بھڑکانے سے بعض علاقوں میں نیم بغاوت کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’را‘ نے فنڈز اور اسلحہ کے ذریعے بلوچستان میں اپنے نیٹ ورک قائم کر لیے اور کراچی میں کچھ عناصر کے ذریعے لاشیں گرانے کا عمل جاری رکھا۔ پھر ایک دن ’را‘ کا ایک اعلیٰ افسر جس کا تعلق بھارت کی نیوی سے تھا، ایران سے بلوچستان آتے ہوئے 3 مارچ 2016ء کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کی گرفت میں آ گیا۔ وہ چابہار میں اقامت پذیر تھا اور جعلی پاسپورٹ پر مبارک پٹیل کے نام پر سفر کر رہا تھا۔ کمانڈر ساؤتھ کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ اور وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں پوری تفصیلات بیان کیں اور اعلان کیا کہ اس کے قبضے سے حساس علاقوں کے نقشے بھی ملے ہیں۔ اس کا اصل نام کلبھوشن یادیو ہے۔ اس نے تفتیش میں اِس امر کا اعتراف کیا کہ کراچی کی بدامنی میں اس کا ہاتھ رہا ہے اور وہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو فوجی تربیت دیتا اور فنڈز اور اسلحہ فراہم کرتا آیا ہے۔ کلبھوشن کا ایک ہدف سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا بھی تھا۔ اس کا خفیہ کوڈ ’تمہارا بندر تمہارے ساتھ ہے‘ تھا۔

جاسوس کلبھوشن مزید تحقیقات کے لیے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اپریل 2016ء کے اوائل میں پاکستان کے متعلقہ حکام نے مختلف ممالک کے سفیروں کو کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کی تخریبی کارروائیوں کے بارے میں تفاصیل فراہم کیں۔ امریکہ اور برطانیہ کو بھی بطورِ خاص تمام حالات سے آگاہ رکھا گیا۔ کئی ماہ کی تفتیش کے بعد دو عدد ویڈیوز میں کلبھوشن کے اعترافات محفوظ کرنے کے بعد اسلام آباد نے ایک ڈوسیر تیار کیا جس میں بھارت کی دہشت گردی کے ثبوت جمع کیے گئے تھے۔ نیول آفیسر کی حیثیت سے کلبھوشن کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل ساڑھے تین ماہ جاری رہا۔ اس کے خلاف چارج شیٹ یہ تھی کہ وہ بھارت کے لیے جاسوسی کرتا، پاکستان کے خلاف جنگ لڑتا، پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتا اور اسے غیرمستحکم کرنے میں لگا رہا۔ فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کی توثیق کی۔ وزیرِدفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا کہ کلبھوشن کا فیئر ٹرائل ہوا ہے، اسے قانونی اعانت فراہم کی گئی ہے اور سزا پاکستان کے آرمی ایکٹ کے تحت دی گئی ہے۔ وہ اس کے خلاف رحم کی اپیل کر سکتا ہے۔ بھارت کا اس معاملے پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کلبھوشن کو بھارتی قونصلر سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس اعتراض پر وہ عالمی عدالتِ انصاف میں گیا۔ 15مئی 2017ء کو ہیگ میں سماعت شروع ہوئی۔ عدالت نے 18مئی کو اس کی پھانسی کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کر دیا۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا طرزِ عمل نہایت معقول اور مسلمہ اصولوں کے مطابق رہا۔ بھارت نے ممبئی پر حملے کے مقدمے میں اجمل قصاب کو موت کی سزا سنائی اور اسے پھانسی دے ڈالی۔ اس کا یہی بہیمانہ طرزِ عمل کشمیری لیڈر افضل گرو کے ساتھ رہا جسے آناً فاناً سولی پر چڑھا دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں بھارت کے خوفناک دہشت گرد کو تمام سہولتیں فراہم کی گئیں اور بین الاقوامی قوانین کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔ اس کی والدہ اور بیوی سے ملاقات بھی کرائی گئی۔ پاکستان کا عالمی عدالتِ انصاف میں بنیادی موقف یہ تھا کہ اسے مقدمہ سننے کا اختیار حاصل نہیں کیونکہ جنیوا کنونشن کا اطلاق جنگی قیدیوں پر ہوتا ہے جبکہ کلبھوشن ایک جاسوس ہے اور وہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں خطرناک حد تک ملوث رہا ہے۔

اِس مقدمے کی باقاعدہ سماعت 18فروری سے شروع ہو رہی ہے۔ اس عدالت میں پاکستان اور بھارت کے جج صاحبان بھی بیٹھیں گے۔ اس وقت بھارت کے ایک مستقل جج پہلے سے موجود ہیں۔ اِس تناظر میں پاکستان کو غیر معمولی کارکردگی کا ثبوت دینا ہو گا۔ عالمی برادری پر یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ اگر دنیا میں امن قائم رکھنا اور ملکوں کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو اوّلین اہمیت دینا ہے، تو اسے بھارت کو تخریبی سرگرمیوں سے روکنا اور بالادستی کی خواہش کو عالمی ضابطوں کے تحت رکھنا ہو گا۔ کلبھوشن کی گرفتاری سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت نے اپنی بحریہ کو بھی دہشت گردی کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ اس کی یہ خوفناک روش عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق جس بےدردی سے پامال کیے جا رہے ہیں، اس کے باعث وہاں کے عوام بھارت کے خلاف بغاوت پر تلے ہوئے ہیں جس سے علاقائی امن کا دامن تارتار ہے۔

بھارت کے وحشت ناک عزائم کے تناظر میں پاکستان کے عوام اور فوج کو یک جہتی کا ثبوت دینا ہو گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین