• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین روز قبل وادی کشمیر میں ایک نوجوان نے بارود سے بھری گاڑی نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے کانوا ئے سے ٹکرائی۔ ایک نہایت ہی زور دار دھماکے میں ایک فوجی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اسمیں سوار تمام 43 افراد نہ صرف ہلاک ہوگئے بلکہ انکے ایسے پرخچے اڑے کہ وہ گویا ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ دھماکے کی زد میں آنے والی دوسری فوجی گاڑی میں بیسوں افراد شدید زخمی ہوئے جن میں ایک شخص کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اسکے علاوہ درجنوں فوجی جوانوں کی حالت نہایت ہی سنگین ہے۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ جائے وقوعہ کے نزدیک کئی رہائشی مکانات اور دکانیں بھی تباہ ہوگئیں۔

1989ء میں شروع ہونے والی عسکری جدوجہد کے دوران بھارتی فورسز کے خلاف یہ اپنی نوعیت کا دوسرا فدائی حملہ تھا۔ پہلا حملہ نوے کی دہائی کے اواخر میں سرینگر کی سب سے بڑی فوجی چھائونی بادامی باغ پر ہوا تھا لیکن یہ ناکام رہا کیونکہ اس میں صرف گاڑی چلانے والا کشمیری نوجوان ہی لقمہ اجل بنا۔ فوجیوں کے جانی نقصان کے لحاظ سے یہ دوسرابڑا واقعہ ہے۔ پہلا واقعہ غالبا 1993ء میں پیر پنچال وادی کے ضلع ڈوڈہ کے نزدیک پل ڈوڈہ کے مقام پر ہوا جب ایک نئی عسکری جماعت حرکت الجہاد الاسلامی کے جنگجوؤں نے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ کیمپ میں موجود ایک سپاہی کے علاوہ باقی سارے جوان مارے گئے۔ حملہ آوروں نے زندہ بچ جانے والے سپاہی سمیت کیمپ میں موجود تمام ساز و سامان اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ کی بہت محدود رسائی کے علاوہ حکومت ہند کی پالیسی کے تحت فوجیوں کی ہلاکتوں کی اطلاعات کو خفیہ رکھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس حملے کے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ تازہ ترین فدائی حملے میں ہونے والی بھاری فوجی ہلاکتوں کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ جہاں ایک طرف بھارتی حکومت کا پورا زور کشمیر میں جاری جدوجہد کو دہشت گردی سے نتھی کرکے اسے پاکستانی کارستانی قرار دینے پر ہے وہیں دوسری طرف پاکستان کا زور اس واقعے پر افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی الزامات کی تردید کرنے پر ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کشمیری یہاں پر جاری قتل اور غارتگری میں بھارتی سیکورٹی کے کردار کو ہمیشہ سے منفی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پلواما میں ہونے والے اس فدائی حملے کے نتیجے میں ایک بہت بڑا انسانی سانحہ رونما ہوا ہے جس کے بہت دور رس نتائج نکل سکتے ہیں جو کسی بھی طور اس خطے کے لوگوں کیلئے خیر کی کوئی خبر نہیں لاسکتا۔ حملے کے فوراً بعد بھارتی ٹیلی وژن چینلز نے لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے۔ ٹیلی وژن اینکرز نے نہ صرف جذباتی زبان کا سہارا لیا بلکہ 11/9 کے فوراً بعد امریکی میڈیا کی طرح بدلے کی ضرورت پر زور دیا اور اسکے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے '’’دیش مانگے بدلہ‘‘ کے نعرے لگانے شروع کئے۔ دسمبر 2001 ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشتگردوں کے مبینہ حملے کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے پاکستان کیساتھ جنگ کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ واجپائی جی کے اعلان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات بہت کشیدہ ہوئے اور طرفین کی افواج لگ بھگ ایک سال تک حالت جنگ میں رہیں۔ بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اگرچہ جنگ ہونے سے رہ گئی مگر اس وقت کی مشرف حکومت کودباؤ میں آکر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے روایتی مؤقف سے ہٹ جانا پڑا جس سے کشمیریوں کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ اس کے بعد بھارتی فیصلہ سازوں نے فتح منانی شروع کی کیونکہ بقول انکے پاکستان کے ہاتھ کھینچنے کے بعد کشمیر میں تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ مگر حالات نے ثابت کردیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان کی امداد رکنے کے باوجود حالات جوں کے توں رہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گمبھیر ہوتے چلے گئے۔ 2016ء میں عسکری کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والی عوامی بغاوت نے بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کےان مفروضوں کو غلط ثابت کردیا کہ اس مسئلے کو سرد خانے کی نذر کیا جا سکتا ہے۔ وانی کی شہادت سے اٹھنے والے طوفان نے پاکستانی حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ دوبارہ اس مسئلے کی طرف نہ صرف توجہ دیں بلکہ اپنے روایتی موقف کی طرف لوٹ آئے۔

کشمیر میں عوامی بغاوت اور پاکستانی موقف کے جواب میں وزیراعظم نریندر مودی نے نہ صرف بلوچستان میں جاری شورش کی مدد کرنے کا اعلان کیا بلکہ گلگت بلتستان میں بھی ایسی تحریک اٹھانے کی بات کی۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے کشمیر میں بقول انکے دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کی بات کی۔تب سے کشمیر میں بے انتہا اور سخت گیر کارروائیوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو قتل کیا جاچکا ہے جبکہ ہزاروں لوگوں کو اندھا اور زخمی جبکہ مزید ہزاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کشمیری نوجوان فدائی حملے کرکے فوج اور نیم فوجی دستوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے مزید حملوں کا امکان بڑھ گیا ہے مگر حق یہ ہے کہ اس قسم کی کارروائیوں سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑیں گے جس سے تباہی ہی برآمد ہوسکتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کشمیری نمائندوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کا ایسا حل نکالیں جو سب کیلئے قابلِ قبول ہو تاکہ مزید تباہی و بربادی سے بچا جاسکے۔

تازہ ترین