• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام میں مساوات، نرم مزاجی، خوش اخلاقی پر بہت زور دیا گیا ہے اور کلامِ مجید میں اس کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے کہ ظلم و جبر کا بدلہ لینے کی اجازت ہے مگر فوراً ہی کہا گیا ہے کہ اگر معاف کردو تو تمھارے حق میں بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف اور درگزر کرنیوالوں کو پسند کرتا ہے۔ اسی طرح نہ گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر، امیر کو غریب پر یا غریب کو امیر پر، نہ عرب کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عرب پر فوقیت حاصل ہے۔ ہمارے سامنے خلفائے راشدینؓ کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ گاندھی جیسا کٹّر ہندو بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ میں رام چندر جی اور کرشنا جی کی بات نہیں کرونگا کہ وہ تاریخی شخصیات نہ تھیں مگر حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کا ذکر کروں گا کہ اتنی بڑی سلطنتوں کے سربراہ ہو کر سادگی میں ان کا ہم مثال نہیں ملتا۔ ہمارے یہاں اللہ تعالیٰ نے اچھے اخلاق والے کو عبادت گزار پر برتری دی ہے۔

ہمارے یہاں جب بھی مساوات کا ذکر آیا تو فوراً ہی شاعر مشرق مفکر اسلام علّامہ محمد اقبالؒ کا یہ شعر ذہن میں آ جاتا ہے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

یعنی نماز کی نیت باندھی تو اللہ کے حضور ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اس کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ایازؒ کے نام سے مجھے سلطان محمود غزنویؒ اور ایازؒ کا ایک واقعہ یاد آیا جو مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے جس میں ایازؒ کی وفاداری کی اعلیٰ مثال بیان کی ہے۔’’بادشاہ کا ایاز کو خطاب کرنا اور ارکانِ دولت کا امتحان لینا اور ایاز کا اُن کو فرمانبرداری دکھانا۔ ایاز سے کہنا کہ تُجھ میں نفس کی مردانگی کم ہے اور پیغمبروں کی مردانگی زیادہ ہے۔ جس امر کو اتنے سرداروں نے نہ سمجھا، تُو نے وفا کی وجہ سے اسے پہچان لیا۔ تُو حق تعالیٰ کے امر کی تعظیم سے واقف ہے۔ اے ایاز! اے نر شیر! اے دیو (نفس) کو مار ڈالنے والے۔ (تجھ میں) گدھے (نفسِ شہوانی) کی مردی کم ہے اور ہوش کی مردانگی (پیغمبروں کی مردانگی) بڑھی ہوئی ہے۔ زہے مردانگی، کہ جس (امر کی) چیز کو اتنے سرداروں نے نہ سمجھا، وہ تیرے سامنے بچوں کا کھیل تھا۔ اے وہ کہ جس نے میرے امر (کلامِ حق) کا مزہ چکھّا ہے۔ تُو نے وفاداری سے میرے امر (کو پہچان کر اس پر عمل کرکے) جان فدا کر دی۔

(اے مخاطب!) اے وہ کہ تُو اس (حق تعالیٰ کے) امر کی تعظیم سے واقف ہے، یہ حکایت سُن لے تاکہ (وہم سے) نجات پا جائے۔ امر الہٰی کے ذوق کی داستان اور اس کی شیرینی کو اب اس بیانِ معنوی میں سُن لے۔

دیوانِ شاہی اور مجمع میں، بادشاہ کا ایک وزیر کو موتی (دُرّ مکنون، جسم کی انا) دینا کہ یہ کس قیمت کا ہے۔ قیمت میں وزیر کا مبالغہ کرنا۔ اور بادشاہ کاحُکم دینا کہ اب اس کو توڑ دے۔ اور وزیر کا کہنا کہ اس عمدہ موتی کو کیسے توڑوں۔ ایک نے گویا یہ دکھایا کہ میں خزانہ کنز مخفی کا خیر خواہ ہوں، نہ کہ آپ کے حُکم کا تابعدار۔ دوسرے نے اُلٹی نصیحت کی کہ موتی کا توڑنا قابلِ افسوس ہو گا۔ تیسرے (مقلّد) نے گمراہی اور لالچ میں وہی کیا جو ان دو نے کیا تھا۔ اور باقی لوگوں نے تقلید کی اور یہ دیکھا کہ انعامات مل رہے ہیں تو کیوں نہ حاصل کریں۔ شاہ کے امتحان کرنے پر نظر نہ گئی۔ شاہ کا خوف بھی غائب ہوا۔

ایک دن کا بیان ہے کہ غنی شاہ محمود جو غزنی کا بادشاہ اور بڑے بادشاہوں میں سے تھا، دیوان شاہی کی جانب گیا۔ وہاں اس دیوان میں سب ارکان کو موجود پایا۔ اُس نے ایک روشن موتی (دُرّ مکنوُن، جسم کی انا) باہر نکالا۔ پھر اس کو جلد وزیر کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ پوچھا یہ موتی کیسا ہے اور کس قیمت کا ہے۔ اُس نے (اپنے خیال کو ترجیح دیتے ہوئے) کہا، اس کو کیسے توڑ دوں۔ میں آپ کے مال اور خزانہ (دین) کا خیر خواہ ہوں (گویا نہ کہ آپ کے حکم کا تابعدار) میں کیسے روا رکھوں اس (رکنِ دین) جیسا موتی (جسم کی انا) جس کی قیمت کا اندازہ نہیں ہو سکتا، رائیگاں ہو جائے۔ شاہ نے کہا :شاباش اور خلعت عطا کی۔ اُس جوان شاہ نے موتی اُس سے لے لیا۔ اس شاہ سخی نے وزیر کو جو لباس اور جوڑا وہ پہنے ہوئے تھا، (جامۂ طریقت) عطا کر دیا۔ ان لوگوں کو تھوڑی دیر نئے معاملے اور پُرانے رازوں کی باتوں میں لگادیا۔اس کے بعد حاجب (فرشتۂ قُدس) کے ہاتھ میں دیا کہ خریدار کے لئے یہ کس قیمت کا ہے۔ اس نے (خیال آرائی کی) کہا کہ یہ آدھی سلطنت کی قیمت کا ہے، خدا اس (موتی، اس انا) کو بربادی سے بچائے۔ (شاہ نے کہا) اس کو توڑ دے۔ اُس نے (نصیحت کی) کہا :اے سورج کی تلوار والے! اس کا توڑنا، قابلِ افسوس ہے، بہت قابلِ افسوس۔ اس کی قیمت کو رہنے دیجئے (گویا آپ کیا جانیں) اس کی چمک اور روشنی کو دیکھئے کہ دن کی روشنی اس کے تابع بن گئی ہے۔ ان کے توڑنے میں میرا ہاتھ کب ہلے گا۔ میں بادشاہ کے خزانے (کنز مخفی) کا دشمن کب ہوں۔ شاہ نے اُس کو خلعت دی، اس کی تنخواہ بھی (اس ظاہری حکم عدولی پر) بڑھا دی۔ پھر اس کی عقل کی تعریف میں مُنہ کھولا (کہ جیسے اپنے مالک اور شاہ سے بھی اُس عارف کو زیادہ عقل ہے)۔

تھوڑی دیر بعد ایک امیر کے ہاتھ میں دیا۔ اُس امتحان کرنے والے نے موتی پھر دیا۔ اُس نے بھی (خود پرستی اور لالچ میں) وہی کہا اور دوسرے امیروں نے بھی وہی کہا۔ اس نے ہر ایک (مُقرّب) کو قیمتی خلعت (جامۂ طریقت) عطا کی (کہ اس کا تعلق صرف دادِ شاہی پر تھا) بادشاہ ان (اہلِ سلوک) کے کپڑوں کے جوڑے بڑھاتا جا رہا تھا۔ اُن خسیس (کنجوس) لوگوں کو، راستہ (امر کی بجا آوری) سے (فریبِ علمیت کے) کنویں میں (اس امتحان کے ذریعے) لے گیا۔ وزیر کی تقلید میں ایک ایک کر کے پچاس ساٹھ امیروں نے یہی کہا۔

اگرچہ تقلید ہی دنیا کے (کام چلانے کا) ستون ہے لیکن (خواص کے مقامِ خلوص مقامِ قُرب میں) آزمائش کے وقت ہر مقلّد رُسوا ہوتا ہے۔ شاہ نے جب سب کا امتحان لیا تو ہر ایک نے (حُکم عدولی کے باوجود اور شاہ کے خوف و ادب سے خالی ہونے کے باوجود) لاتعداد مال اور خلعت حاصل کی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین