• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ریاض کی دیرینہ و مثالی دوستی کا سفر نئی بلندیوں سے ہمکنار ہو آ رہا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دو دن کا دورۂ پاکستان قیادت کی سطح پر ہی نہیں، وفود کی سطح پر وزرائے خارجہ، وزرائے تجارت اور نجی شعبے کے اہم رابطوں، فیصلوں اور نتائج کا ذریعہ بنا ہے اور اس میں عالمی برادری کو اہم پیغامات بھی دیئے گئے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے طیارے کے پاک سر زمین میں داخلے سے لے کر ان کی روانگی تک ان کی تعظیم و تکریم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ دونوں طرف کے رہنمائوں کے بیانات اور عام لوگوں میں دیکھا گیا جوش وخروش برادرانہ محبت کے جذبات کا مظہر ہے۔ سعودی ولی عہد کی آمد کے پہلے روز 17فروری 2019ء کو مختلف شعبوں میں تعاون و سرمایہ کاری کے 20؍ارب ڈالر مالیت کے سات معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخطوں، شہزادہ سلمان اور وزیراعظم عمران خان کی مشترکہ صدارت میں سپریم کوآرڈیننس کونسل کے افتتاحی اجلاس، مخصوص شعبہ جات میں تعاون کا فریم ورک بنانے کیلئے اسٹینڈنگ کمیٹی اور ورکنگ گروپوں کی تشکیل جیسے بڑے کام انجام پا ئے جبکہ 18؍فروری کو سعودی ولی عہد کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز دیا گیا اور اس مقصد کیلئے انہیں ایوان صدر لانے کیلئے صدارتی بگھی کا استعمال ایسا غیر معمولی پروٹوکول ہے جس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ مذکورہ دو روزہ دورے میں مختلف سطحوں پر کئے گئے مذاکرات، دورے کی تکمیل پر جاری کئے گئے مشترکہ بیان اور روانگی سے قبل نور خان ایئربیس پر شہزادہ سلمان اور وزیراعظم عمران خان کی مشترکہ پریس کانفرنس سے واضح ہے کہ 2018میں پاکستان کی جس معیشت نے 5فیصد شرح سے ترقی کی ہے، اسے سعودیہ 2030ء میں بڑی اکانومی کے طور پر دیکھ رہا ہے اور ترقی میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہتا ہے۔ برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی پاکستان میں 20؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض ابتدا ہے، دونوں ممالک کے تعلقات بہت آگے جائیں گے۔ مشترکہ اعلامیے میں علاقے، سیکورٹی، خطّے اور بین الاقوامی امور پر مجموعی اعتبار سے ہم آہنگی کا تاثّر نمایاں ہے۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ خطّے میں تنازعات کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ یہ بات خاص طور پر اہمیت کی حامل ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے کے بعد بھارت گئے ہیں اور یہ بات قرین قیاس ہےکہ اس دورے کے دوران وہ بھارتی حکومت سے خطے میں قیام امن کے حوالے سے ضرور بات کریں گے جیسا کہ انہوں نے مشترکہ اعلامیے میں بھی کہا کہ تنازعات کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔ یہ بات تو پوری دنیا پر عیاں ہو چکی کہ یہ بھارتی قیادت کا پرانا طریقۂ کار ہے کہ انسانی المیوں کو سیاسی مفادات، پاکستان کو بدنام کرنے اور انتخابی کامیابی کے لئے استعمال کرتا ہے، حالانکہ اسے بخوبی علم ہو چکا ہے کہ معاملات طے کرنے کیلئے بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے، ایسے وقت میں کہ جب امریکہ جیسی سپر طاقت طالبان سے بات چیت کا راستہ اختیار کر کے افغانستان کی دلدل سے نکلنے کی سبیل کر رہی ہے تو خطّے میں امن و خوشحالی کے نئے امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے نئی دہلی اور اسلام آباد کو بھی بالآخر بات چیت کا وہی راستہ اختیار کرنا ہو گا جو فرانس اور جرمنی نے صدیوں سے جاری جنگ کو دوستی میں بدلنے کیلئے اختیار کیا۔ جہاں تک پاک سعودی تعلقات کا تعلق ہے، وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا مخصوص جغرافیائی و اسٹرٹیجک محل وقوع اور سعودی عرب کی خصوصی اہمیت ایک ایسا امتزاج ہے جو خطّے کے مستقبل کیلئے سنہری مواقع پیدا کر سکتا ہے۔اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ اپنے دوست اور برادر ممالک کے تعاون سے پاکستان اس مالی بحران سے بخوبی نکل آئے گا جس کے باعث اسے امورِ مملکت چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ پاکستان کو اپنے دوست ممالک سے تعاون کے مزید معاہدے کرنا ہوں گے تاکہ مستقل طور پر معاشی استحکام حاصل ہو سکے۔ پاکستان کے دوست ممالک کا پاکستان کی مدد کیلئے آگے آنا موجودہ حکومتوں کی کاوشوں کا ثمرہ ہے اور امید ہے کہ دنیا کے مزید ممالک پاکستان سے اقتصادی تعلقات استوار کریں گے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی اہمیت سے سبھی آگاہ ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین