• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف سندھ کے آباد گاروں اور عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ مطلوبہ مقدار میں پانی کی ترسیل نہ ہونے سے اکثر علاقوں میں فصل سوکھ گئی ہے اور عوام پینے کے پانی کے لئے بھی ترس رہے ہیں‘ جبکہ دوسری طرف پنجاب میں مزید ڈیم بنانے کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ دیہی سندھ کے کئی ادارے شکایت کررہے ہیں کہ اب خود ارسا دریائے سندھ سے سندھ کے حصے کا پانی علی الاعلان پنجاب کو فراہم کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ڈولپمنٹ یہ ہے کہ 22جنوری کو خبر شائع ہوئی کہ وفاقی حکومت نے پنجاب میں پانچ ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر لی۔ ان ڈیموں میں اکھوڑی ڈیم‘ چنیوٹ ڈیم‘ پاپن ڈیم‘ مرنگ ڈیم اور گھبیر ڈیم شامل ہیں۔ وزارت آبی امور کے مطابق ان پانچ ڈیموں میں سے اکھوڑی ڈیم دریائے ہرو پر اٹک میں بنایا جائے گا‘ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 6ملین ایکڑ فٹ ہو گی‘ چنیوٹ ڈیم دریائے چناب اور چناب نگر کے درمیان بنایا جائے گا‘ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 0.85ملین ایکڑ فٹ ہوگی‘ اسی طرح مرنگ ڈیم راجن پور سے 116کلو میٹر فاصلے پر بنایا جائے گا‘ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 0.600ملین ایکڑ فٹ ہو گی۔ دوسری جانب گھبیر ڈیم تلہ گنگ میں بنایا جائے گا۔ اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 0.66ملین ایکڑ فٹ ہو گی۔ کوئی بھی نیا ڈیم بنانا وفاقی حکومت کے اختیار میں نہیں ہے‘ ملک کے رولز آف بزنس کے مطابق ایسا کوئی بھی پروجیکٹ شروع کرنے سے پہلے یہ پرپوزل سی ڈی ڈبلیو پی کے فورم پر زیر غور آتا ہے‘ اس ادارے میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے‘ جب اس فورم سے متفقہ طور پر پروجیکٹ منظور ہو جائے تو اس کے بعد مذکورہ منصوبہ اعلیٰ سطحی اداروں میں زیر غور آتا ہے۔ جہاں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ جب یہ پروجیکٹ سی ڈی ڈبلیو پی (سینٹرل ڈولپمنٹ ورکنگ پارٹی) کے اجلاس میں زیر غور نہیں آیا تو وفاقی حکومت اس کی منصوبہ بندی کیسے کر سکتی ہے؟‘ نئی حکومت کی اس روش پر حیرت اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ جب اس حکومت نے اٹھارویں آئینی ترمیم کو پائوں تلے روندتے ہوئے حال ہی میں ہائر ایجوکیشن کے ادارے‘ کراچی کے جناح اسپتال اور سندھ میوزیم کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے تو یہ سمجھا جائے کہ اب نہ آئین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ رولز آف بزنس کی۔ سندھ کے عوام کو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ جس وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے اس کے انچارج وزیر کا تعلق سندھ سے ہے مگر کئی لوگوں کو اس وزیر کے کسی ایسے فیصلے پر حیرت نہیں ہو گی کیونکہ حکومت میں آتے ہی انہوں نے سندھ کی توہین کرتے ہوئے کئی قابل اعتراض بیان جاری کئے تھے۔ جس کے نتیجے میں سندھ کے کئی سیاسی حلقے اس وزیر جس کا نام فیصل واوڈا ہے سے متنفر بھی ہیں‘ اس مرحلے پر میں اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ دس پندرہ سال پہلے پنجاب نے اکھوڑی ڈیم بنانے کی تیاریاں کی تھیں اس وقت سندھ کے اکثر آبی ماہرین جن میں خاص طور پر مرحوم عبدالرسول میمن شامل تھے نے اس ڈیم کی شدید مخالفت کی تھی‘ ان کا کہنا تھا کہ اکھوڑی ڈیم ٹیل اینڈ صوبہ سندھ کے لئے کالا باغ ڈیم سے بھی زیادہ خطرناک ہے لہٰذا اس وقت سندھ کے آبی ماہرین اور سیاسی حلقوں کی طرف سے اکھوڑی ڈیم کی شدید مخالفت کی گئی۔ واضح رہے کہ ’’جنگ‘‘ کی اس خبر کے مطابق اکھوڑی ڈیم میں 6.00ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہو سکے گا‘ بہر حال اس وقت سندھ کی طرف سے اس ڈیم کی شدید مخالفت کی وجہ سے وفاقی حکومت اور پنجاب نے اس ڈیم کو روک دیا مگر اب شاید پنجاب اور وفاقی حکومت بشمول اکھوڑی ڈیم پانچ ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ پتہ نہیں باقی چھوٹے تین صوبوں خاص طور پر ٹیل اینڈ صوبہ سندھ نے اس سلسلے میں کیا موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ دلچسپ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو پہلے ہی تین ڈیم تعمیر کرنے کا کام جاری ہے اور اب بشمول اکھوڑی ڈیم پانچ مزید ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے دوسری طرف اب سندھ کے کئی حلقوں کی طرف سے شکایات کی جا رہی ہیں کہ اور تو اور ارسا جیسا ادارہ دریائے سندھ سے بڑے پیمانے پر سندھ کے حصے کا پانی چوری کرکے پنجاب کے بیراجوں میں بھیج رہا ہے‘ اس سلسلے میں سندھ کے کئی سندھی اخباروں میں خبریں کئی دنوں سے شائع ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں 11فروری کے ایک ممتاز سندھی اخبار میں خبر شائع ہوئی جس کی سرخی تھی۔ ’’سندھ کے ساتھ ارسا کا دھوکہ‘ سندھ میں پانی کی قلت 60فیصد تک پہنچ چکی ہے‘‘ خبر میں کہا گیا کہ ارسا یہ چوری چشمہ کے مقام پر کر رہا ہے‘ خبر میں اس سلسلے میں تفصیلات دی گئی ہیں ان کے مطابق سکھر بیراج کی اپ اسٹریم بہائو میں تین دن کے اندر 3ہزار کیوسک کی کمی کے بعد Pond Level سات فٹ نیچے آ گئی‘ اس کے بعد سکھر بیراج کے دائیں اور بائیں طرف نکلنے والے کیر تھر کینال میں 2200کیوسک‘ دادو میں 1400کیوسک‘ نارا کینال میں 4600کیوسک‘ خیرپور فیڈر ایسٹ میں 400کیوسک‘ روہڑی کینال میں 4600کیوسک کم ہونے کی وجہ سے سکھر بیراج میں پانی کی قلت 60فیصد تک پہنچ گئی‘ اسی دوران 17فروری کو ایوان زراعت سندھ کی طرف سے اس ایشو پر ایک بیان جاری ہوا جو 18فروری کو سندھی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا کہ ’’تربیلا ڈیم اور بشام کے درمیان سندھ کا 22ہزار کیوسک پانی چوری کیا گیا‘ حکومت سندھ آواز اٹھائے‘‘۔ اس صورتحال کے نتیجے میں سندھ کے مختلف علاقوں سے پانی کی شدید قلت کے خلاف جو آواز اٹھی اور اس سلسلے میں سندھ کے اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئیں ان میں سے چند کی سرخیاں پیش کی جارہی ہیں۔ ’’لاڑکانہ میں پانی کی شدید قلت کے خلاف آباد گاروں کا مظاہرہ‘‘۔ ’’بدین کے جنوبی حصے میں پانی کی شدید قلت‘‘ بشمول جنگ شاہی‘ کوہستان کے 20 گائوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت‘‘۔

تازہ ترین