• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں الیکشن جوں جوں نزدیک آرہے ہیں وزیراعظم نریندرمودی اپنا اعتماد کھوتے جارہے ہیں، عمران خان نے بالکل درست کہا ہے ’’بھارت ماضی میں نہ پھنسا رہے‘‘ اتنا بڑا ملک ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق وہاں حکومتوں کی تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔ بھارت کی سرحدوں میں سے کچھ حصّہ پاکستان سے جڑا ہوا ہے، لیکن بھارت کی پوری سیاسی داخلہ و خارجہ پالیسی پاکستان کے حوالے سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ 72سال بعد یہ اُمید کی جانی چاہئے تھی کہ جمہوریت کے مستقل اور مسلسل تجربے کے بعد بھارت کے رویوں میں کچھ بلوغت اور پختگی آئے گی۔ اب تو سوشل میڈیا آگیا ہے۔ ٹویٹر ہے، فیس بک ہے، ای میل ہے، وٹس ایپ ہے، دنیا سمٹ رہی ہے لیکن بھارت کے روئیے وہی ہیں جو پچاس کی دہائی میں تھے۔ کشمیر میں غاصبانہ قبضہ جاری رکھنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کئےجا رہے ہیں جو نہرو، شاستری اور اندرا گاندھی کے دَور میں اختیار کئے جاتے تھے۔ بھارت کے صحافیوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو اس روش پر غور کرنا چاہئے کہ مسلسل جمہوریت سے بھارت کے حکمراں طبقوں کی ذہنیت کیوں نہیں بدلی۔ وہ کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یوں تو پی ایچ ڈی کر لی ہے لیکن وہ کام اپنی میٹرک سے ہی لے رہا ہے۔ بھارت بھی پاکستان کے معاملے میں اپنا رویہ 50اور ساٹھ کی دہائیوں والا اپنا رہا ہے۔ 90-80-70اور ہزاریے کے بعد پہلی دو دہائیوں میں دنیا کتنا آگے بڑھ چکی ہے۔ یورپی یونین نے پاسپورٹ ویزے کی پابندیاں ختم کردی ہیں۔ سرحد ایسے پار کی جاتی ہے جیسے ایک محلّے سے دوسرے محلّے میں داخل ہوتے ہیں۔

اب کیا ہمیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے سے یہ امید کرنا چاہئے کہ بھارت اپنے اندازِ فکر میں پاکستان سے متعلقہ پالیسیوں میں تبدیلی لائے گا۔ کیا سعودی عرب کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ بھارت کو انسان دشمن رویوں کا احساس دلا سکے۔

بھارت پاکستان دشمنی میں آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ مودی کا خیال ہے کہ اس پالیسی سے اسے ہندو ووٹ زیادہ سے زیادہ مل سکے گا مگر آثار یہ نہیں کہتے۔ راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس انتخابی فتوحات حاصل کر رہی ہے۔ بھارت کے ان پاکستان مخالف رویوں کو ہم صرف ایک اقتصادی طور پر مضبوط اور آگے بڑھتے پاکستان سے شکست دے سکتے ہیں۔ ان دنوں ہر طرف چرچا ہے کہ سعودی عرب سے 20ارب ڈالر سے زیادہ کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

دوست آں باشد کہ گیرد دست ِدوست

در پریشاں حالی و درماندگی

سعودی عرب نے ہمارے مشکل اقتصادی وقت میں ہمارا ہاتھ تھاما ہے مگر میں سوالوں میں گھرا ہوا ہوں کہ کیا ہمارے اقتصادی اور بیورو کریٹک ڈھانچے میں اس زر مبادلہ کو سنبھالنے کی استعداد ہے؟ کیا ہم اسے درست انداز میں خرچ کرسکتے ہیں؟ ہمارا ٹریک ریکارڈ ایسا نہیں ہے صرف ایک سال پہلے تک 2008سے 2018تک میگا پروجیکٹس میں کمیشن اور اپنا اپنا حصّہ لینے کی روایات رہی ہیں۔ کیا اب متعلقہ بیورو کریٹس کی عادتیں یکدم بدل جائیں گی۔ عمران خان اور شہزادہ محمد کی سرکردگی میں قائم سپریم کونسل کے پاس کیا واقعی وقت ہو گا کہ وہ ایک ایک پائی کا حساب لے سکے۔ ان شعبوں سے وابستہ تجربہ کار ماہرین سے بھی عمران خان مشاورت کریں۔ اس زر مبادلہ کو صرف منظور نظر افسروں کے حوالے نہ کیا جائے۔

میں تو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہمارے عوام خواص کی نسبت زیادہ با شعور ہیں۔ یہی سوال کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہو رہے ہیں۔ نوجوان بہت خوش ہیں کہ ہمارے دوست اور حرمین شریفین کے پاسباں سعودی عرب نے اس انتہائی مشکل وقت میں ہمیں حوصلہ دلایا ہے۔ ظاہر ہے کہ سعودی عرب کے اپنے قومی مفادات بھی ہوں گے ان کی تکمیل کے لئے وہ یہ راستہ اختیار کر رہا ہے۔ بھارت میں بھی سرمایہ کاری ہو گی۔ کیا اُمید رکھی جائے کہ بھارت کی قیادت پاکستان دشمنی کی دیوانگی سے باہر نکلے گی۔ کراچی کے مضافاتی علاقے گورنمنٹ کالج مراد گوٹھ کی لائبریری کے لئے میں ذاتی کتب خانے سے کچھ کتابیں بطور عطیہ دینے گیا۔ وہاں طلبا و طالبات اور اساتذہ کے یہی سوالات تھے کہ کیا اس سرمایہ کاری سے ہمارے حالات بدل جائیں گے۔ ان طلبہ اور اساتذہ کے سوالات کا جواب دینے کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو نے غالب کے یوم وفات کے حوالے سے ایک روزہ قومی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ جس میں ملک کے دوسرے حصّوں سے بھی اساتذہ اور محققین کو دعوت دی گئی۔ یونیورسٹی کا آرٹس آڈیٹوریم طلبا وطالبات سے بھرا ہوا تھا۔ دوسرے کالجوں سے بھی طالبات آئی تھیں۔ میں ہر لمحہ سوچتا ہوں کہ ان سب مثبت رجحانات کے باوجود ہمارا معاشرہ کیوں نہیں بدل رہا۔ ہماری اشرافیہ ملکی خزانہ لوٹنے میں کیوں مصروف رہتی ہے۔

اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آرہا ہے کہ ایک زمانے میں تو ٹرائیکا تھی آٹھویں ترمیم کے دَور میں صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف۔ آرمی چیف اپنا وزن جس کے پلڑے میں ڈال دیتا وہ فتح یاب ہو جاتا۔ اب تو صدر صرف رسمی ہے۔ اس کے پاس اسمبلی یا حکومت برطرف کرنے کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ اب ٹرائیکا وزیر اعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف پر مشتمل ہے۔ لیکن میرے نزدیک ایک ترقی پذیر معاشرے کے لئےسب سے بہتر اور نتیجہ خیز ٹرائیکا ہیڈ ماسٹر، پرنسپل اور وائس چانسلر ہو سکتی ہے۔ اس ٹرائیکا نے قرون اولیٰ میں بھی انقلاب برپا کئے اور آج کل بھی ترقی یافتہ ملکوں میں یہی ٹرائیکا قوم کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں جہاں یہ ذمہ دار مثلث باشعور اور وژن کے ساتھ ہے، وہاں بہت فرق پڑتا ہے۔ ایک طرف تو یہ تعلیم کو کاروبار نہ سمجھیں، دوسری طرف حکومت اور خاص طور پر محکمۂ تعلیم اس ٹرائیکا کو اہمیت دے۔ یہ جانتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسل میں کیا خوبیاں ہیں اور کیا خامیاں۔ اگر اس ٹرائیکا کو خود مختاری دی جائے ان کے فرائض میں مداخلت نہ کی جائے تو تبدیلی یہیں سے آ سکتی ہے۔ آپ 50اور 60کی دہائی میں دیکھ لیں کہ اس وقت کے ہیڈ ماسٹر، پرنسپل اور وائس چانسلر کیسے رول ماڈل ہوتے تھے۔ کرپشن کتنی کم تھی۔ ہم آگے بڑھ رہے تھے۔ جب سے یہ ٹرائیکا کمزور ہوئی ہے اس وقت سے معاشرہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

تازہ ترین