• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن چھوڑ کر برطانیہ میں بسنے کے بہت فائدے ہوں گے مگر ایک بڑا نقصان ہے اور وہ یہ کہ ہم ولایت میں ہیں اور دل کسی حال وطن سے جدا ہونے پر آمادہ نہیں۔ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو اپنی سرزمین کی ذرا ذرا سی خبر مل رہی ہے۔ اس میڈیا کی برق رفتاری ہر روز بجلی بن کر گرتی ہے اور ہر روز ہمارے دل و دماغ کے خرمن کو پھونکے جاتی ہے۔ پاکستان سے صبح شام جی کو دہلانے والی خبروں کی یلغار کے بعد اب تو یہ حال ہے کہ کوئی ٹیم، کوئی بھی میچ جیت جائے یا کوئی سر پھرا موجد پانی سے چلنے والی موٹر کار چلا کر دکھا دے تو ہم جی ہی جی میں جشن مناتے ہیں اور دل ہی دل میں لوگوں کی آنکھ بچا کر جھوم بھی لیتے ہیں۔
یہ سب سہی، دل کو کسی بہانے کتنا ہی بہلائیں، اس نظر کا کوئی کیا کرے جو ہر بار اُدھر کو لوٹ جاتی ہے جدھر سے گوشت جلنے کی بو آرہی ہے۔ لوگ بارود سے کھلونے کی طرح کھیل رہے ہیں، دستی بم کو لوگ انار کہنے لگے ہیں، کلاشنکوف کا موجد مر گیا ہے لیکن یہ نعرہ بجا طور پر لگایا جا سکتا ہے کہ زندہ ہے کلاشنکوف زندہ ہے۔ وڈیروں کے اوباش بیٹے کسی شریف گھرانے کی لڑکی کو چھیڑتے ہیں اور لڑکی کا جوان بھائی منع کرے تو اسے گولی مار کر کسی حویلی میں روپوش ہو جاتے ہیں ۔ لوگ ہمارے باوردی جوانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور انہیں قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ کھانسی کا کوئی ایسا شربت نکلا ہے جسے پیتے ہی مرض اور مریض دونوں ٹھکانے لگ جاتے ہیں۔ ایک چھ برس کی ہندو بچّی کو کوئی درندہ اچھی طرح روند کر چھپ گیا ہے، کوئی پرسانِ حال نہیں حالانکہ ایسے حالات میں حکومتوں کی فصیلوں میں شگاف پڑ جایا کرتے ہیں۔ یہ فہرست مکمل نہیں، مصائب اور بھی ہیں۔
بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ ہمارا مغرب میں آباد ہونا غضب ہوگیا ہے۔ وہیں ہوتے تو وہاں کے رنگ میں رنگے ہوتے، کھال موٹی ہوجاتی، خبریں ایک کان سے سنتے اور اُسی کان سے اڑا دیتے، پہلے سپر اسٹور اور پھر باربی کیو ایوننگ میں جاتے اور کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے یہ بھی نہ دیکھتے کہ بل کتنی رقم کا بنا ہے۔
اب جو ہوا ہے اس کا بیان بڑا کرب ناک ہے۔ اب یہ ہوا ہے کہ جوں ہی پاکستان میں کچھ ہونے کی خبر آتی ہے، فوراً ہی یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہی یہاں مغرب میں ہوا ہوتا تو کیا ہوتا۔ لاکھ چاہتے ہیں کہ موازنہ نہ کریں مگر دل نہیں مانتا۔
مثال کے طور پر سندھ میں خسرہ کی وبا پھیلی ہے اور پھول جیسے بچّے یوں مر رہے ہیں جیسے زہریلی دوا چھڑکنے کے بعد لال بیگ مرا کرتے ہیں۔ علاقے کے حاکم نے اعلان کردیا ہے کہ ہمارا قصور نہیں، یہ سب محکمہ صحت کا کیا دھرا ہے۔ خیال آتا ہے کہ برطانیہ میں علاج سے محروم ایک بچہ بھی مر جاتا تو حکومت کی بنیادیں ہل جاتیں اور حکام کی نیندیں حرام ہو جاتیں، کتنے ہی لوگ شرمندہ ہوتے، نادم ہوتے، اعتراف کرتے، معافی مانگتے اور وہ کرتے جس کا ہمارے ہاں تصوّر تک نہیں یعنی استعفیٰ دے کر چلے جاتے۔
وہ علاقے جو قبائل کی دسترس میں ہیں وہاں لیویز کے خاصہ داروں کو جہاد کے نشے میں سرشار مجاہد اٹھا لے گئے اور جیسے شادی بیاہ میں پٹاخے چلتے ہیں اس طرح گولیاں برسا کر بڑے فخر سے کہا کہ ہم جنگی قیدیوں کو معاف نہیں کرتے۔ یہی نہیں، قتل عام کی ویڈیو بنا کر دنیا کو بھی دکھا رہے ہیں۔ برطانیہ میں اگر ایک سرکاری اہل کار بھی مارا جاتا تو مارنے والا تیس برس تک روپوش رہتا پھر بھی اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ وہی تیس سال ہونے کو آرہے ہیں، لندن کی سڑک پر ڈیوٹی سرانجام دینے والی ایک خاتون کانسٹیبل پر لیبیا کے سفارت خانے کی عمارت کی ایک کھڑکی سے قذافی کے ایک سفارت کار نے گولی چلا کر خاتون کو مار ڈالا۔ جس جگہ وہ گولی کھا کر گری وہاں اس کی یادگار قائم کردی گئی ہے، ہر سال لوگ جاکر اس مقام پر پھول چڑھاتے ہیں اور لییبا کے انقلاب کے بعد نئے حکمرانوں سے کہا جارہا ہے کہ ہماری سپاہی کے قاتل کو ڈھونڈ کر نکالو۔
پنجاب کے زائرین بسوں میں بھر کر ایران جارہے تھے، ان کی بسوں کو بارود سے اڑاکر جھلسا دیا گیا ، اس کے بعد ہم یہ سن کر رہ گئے کہ ان کی ناقابل شناخت لاشیں طیارے کے ذریعے راولپنڈی پہنچا دی گئی ہیں۔
کمسن بچّوں کو معذوری سے بچانے کے لئے ان کے منہ میں دوا کے قطرے ٹپکانے والے غریب رضاکار برطانیہ میں نکلتے تو لوگ سڑکوں پر نکل کر ان کا خیر مقدم کرتے اور دوا پلانے کے لئے اپنے بچّے اٹھائے خود ان کی طرف آتے لیکن ہمارے مفلس رضا کارجو دن کے خاتمے پر جو ڈھائی سو روپے لے کر گھروں کو لوٹتے، اب ان کی لاشیں لوٹ رہی ہیں اور مجاہد سرشار ہیں کہ بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
فلاحی اداروں کی رضا کار خواتین اور مرد جو ضرورت مندوں کو دستکاری کا ہنر سکھانے جارہے تھے، یہاں ان پر گولیاں نہ برستیں، موسم کے تازہ پھول برستے۔
یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اگر برطانیہ میں کسی فیکٹری کی عمارت میں آگ لگ جاتی اور تین سو محنت کش زندہ جل جاتے تو ایسی قیامت آتی کہ خدا کی پناہ۔ کوئی شخص فیکٹری کی عمارت کھڑی کرے اور اس میں بچ نکلنے کے راستے نہ ہوں تو اس شخص کا بچ نکلنا مشکل ہے۔ میں تقریباً تیس سال تک بی بی سی سے وابستہ رہا۔ اس کی مشہور عمارت بش ہاؤس میں قدم قدم پر آگ بجھانے کے انتظامات تو دیکھے، آگ کبھی نہ دیکھی۔پھر بھی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ عمارت میں کام کرنے والے ہر شخص کے لئے لازم تھا کہ سال میں ایک مرتبہ آگ بجھانے والے عملے کا لیکچر سنے اور اگر کوئی نہ سنے تو اسے کام نہیں دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ سال میں ایک مرتبہ آگ کا الارم بجا کر پوری عمارت کو لمحہ بھر میں خالی کرانے کی مشق کرائی جاتی تھی۔ کون کس راستے سے باہر نکلے گا، باہر نکل کر لوگ کس جگہ جمع ہوں گے، کس طرح انہیں شمار کیا جائے گا اور بالآخر کیسے کام پر واپسی ہوگی۔ یہ سارا کام ایسی سنجیدگی سے سرانجام پاتا جیسے آگ اب لگی اور جب لگی۔ یہ بات خدا جانے یہاں کہنے کی ہے یا نہیں مگر دل کہے بغیر نہیں مانتا۔ برطانیہ کی رہائشی عمارتوں میں آگ لگنے کی خبریں متواتر آتی ہیں۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ ماں یا باپ یا دونوں اپنے تین چار بچّوں کے ساتھ جل کر مرگئے۔ جوں ہی یہ خبر آتی ہے، لب پریہ دعا بھی آتی ہے کہ الٰہی ، یہ لوگ پاکستانی نہ ہوں۔ لیکن اگلی ہی سانس میں پتہ چلتا ہے کہ ہماری دعا نامراد رہی۔ لاکھ سمجھاتے ہیں کہ گھروں میں دھوئیں کے الارم لگوا لو جو مفت ملتے ہیں، نہیں لگواتے۔ یہی حال موٹر گاڑیوں کی حفاظت کا ہے۔ ابھی کچھ روز ہوئے ایک مصروف موٹر وے پر ایک کار بے قابو ہو کر چور چور ہو گئی۔ ایک خاتون اور دو نو عمر بچے اپنی جان سے گئے، علاقے کا ٹریفک نظام درہم برہم ہو گیا، سارا ٹریفک چار گھنٹے بند رہا اور ٹیلی ویژن پر دن بھر حادثے کی خبر نشر ہوتی رہی۔ شام کو پتہ چلا کہ مرنے والی خاتون اور بچّے، سب پاکستانی تھے۔
ابھی ایک رات میں تھکا ہارا گھر میں داخل ہوا۔ رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ ایک گھنٹے کے بڑے خبر نامے کا ، جودس بجے شروع ہوتا ہے، نصف حصہ ہی دیکھ لیا جائے۔ جوں ہی ٹی وی کھولا نیوز ریڈر کی پشت پر پاکستان کا پرچم نظر آیا۔ ابھی منہ سے نکلا ہی تھا کہ خدا خیر کرے، خبر سنائی گئی کہ پاکستانی والد صاحب انگریز ماں کی بچّی کو تین سال پہلے دھوکا دے کر پاکستان لے گئے تھے اور اسے لاہور کے قریب کسی قصبے میں چھپا رکھا تھا۔ بچّی کی بازیابی کے سلسلے میں پاکستانی پولیس ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔ برطانیہ کے معمولی نہیں بلکہ اعلیٰ حکام نے پیچھے پڑ کر مجبور کیا چنانچہ لڑکی بازیاب ہوگئی۔ خبر یہ تھی کہ بچّی آج شام پی آئی اے کی پرواز سے لندن پہنچا دی گئی ہے اور ماں نے تین سال بعد اپنی بیٹی کو ،جو اب چھ برس کی ہے، پہلی بار دیکھا ہے۔
کس کی بچّی تھی، کون والدین تھے، اس سے قطع نظر اہل برطانیہ اُس رات چین سے سوئے ہوں گے۔
بس، حال یہ ہے کہ کسی بھی خبر میں جب کبھی وطن عزیز کا نام آتا ہے، دل کی کم سے کم ایک دھڑکن لڑکھڑاتی ضرور ہے۔
تازہ ترین