• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لائن لاسز خصوصاً چوری، طلب و رسد میں عدم توازن اور مختلف مدوں میں عائد ٹیکسوں سے بجلی کے بھاری بھرکم بلوں نے عوام کو جس طرح بے حال کر رکھا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اس پر آئے دن توانائی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ جس طرح ان پر بجلی بن کر گرتا ہے ،کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہر سال سردی کی آمد سے پہلے گیس اور موسم گرما سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان گزشتہ دہائی کے دوران بڑھا ہے جس کی رو سے ایک روپے 80پیسے فی یونٹ کیا جانے والا حالیہ اضافہ آنے والے گرمی کے سیزن کی شروعات ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ مجموعی طور پر 13ارب 50کروڑ روپے کا اضافہ جنوری کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی شکل میں کیا گیا ہے۔ بدھ کے روز نیپرا نے اضافے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج کے حوالے سے بجلی 30فیصد مہنگی کرنے کا مطالبہ بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال صارفین کے لیے نیا امتحان ہے کیونکہ حالیہ سردی کے سیزن میں وہ گیس کے ہوشربا بلوں کے باعث نڈھال ہو رہے ہیں۔ حکومت کو صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ ابھی گزشتہ ماہ وہ منی بجٹ پیش کر چکی ہے جس سے ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، دوسری طرف مرمت کے نام پر آئے روز کئی کئی گھنٹے بجلی کی بندش کا رجحان جو پوری سردی کے سیزن میں جاری رہا، اس کی بڑی وجہ 1960کے عشرے میں قائم کیا جانے والا نظام ہے جو فرسودہ ہو جانے کے باوجود محض مرمتوں تک محدود ہے۔ واپڈا ملازمین کی حادثاتی اموات کی ایک وجہ بجلی کی ترسیل کا یہ بوسیدہ نظام بھی ہے، جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ لائن لاسز پر قابو پانے اور بجلی کی چوری روکنے کے لئے ٹھوس اور مربوط نظام تشکیل دے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین