• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی خطرناک صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی حالات کی سنگینی پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان صورت حال بہت خراب اور انتہائی خطرناک ہے۔ گزشتہ جمعہ کو اپنے اوول کے دفتر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ کشیدگی ختم ہو۔ بہت سے لوگ پہلے مارے گئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ رکے‘‘۔ امریکی صدر کے اس انتباہ کو عالمی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نئی صف بندیوں کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ یہ محض ایک بیان نہیں ہے۔ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے بیانات سے بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات بہت غیر معمولی ہیں۔ ان کا ادراک کرتے ہوئے ہماری قیادت بھارت کے رویے پر سخت ردعمل کا اظہار کر رہی ہے اور بھارت کو متنبہ کر رہی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے گریز کرے۔ 14فروری کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد بھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور پاکستان پر بلا ثبوت الزامات کی وجہ سے صورتحال کشیدہ ہوئی اور طویل عرصے کے بعد روایتی جنگ کے خطرات محسوس ہونے لگے ہیں۔

عمومی طور پر دنیا اس بات پر یقین کر چکی ہے کہ دو ملکوں کے مابین روایتی جنگ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ ان کی جگہ ’’ہائبرڈ وارز‘‘ یا مختلف آپریشنز یا مشنز جنگ کی نئی شکلیں ہیں لیکن امریکی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور جارج ٹائون یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز ایم ڈیوبک (JAMES M. DUBIK) کا خیال اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روایتی جنگوں کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ بہت سے ظاہری رجحانات کے ٹکرائو کی وجہ سے یہ خطرہ موجود ہے۔ وہ اپنے ایک تحقیقی مقالے میں جنگوں کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روایتی جنگوں سے گریز کا موجودہ ’’انتظام‘‘ جنگ عظیم دوئم کے بعد کے حالات کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ سرد جنگ کے دور میں کچھ روایتی جنگیں بھی ہوئیں لیکن یہ روایتی جنگوں کا 1760ء سے 1950ء تک والا عہد نہیں تھا۔ روایتی جنگوں کے اس ’’انتظام‘‘ سے عمومی طور پر دنیا کی تمام اقوام کو فائدہ ہوا مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہوا۔ متعدد اقوام نے روایتی جنگ کے خطرے کے پیش نظر دیتارنس (DETERRENCE) کیلئے جوہری ہتھیار بھی بنائے لیکن جیمز ڈیوبک کے بقول عالمی مسابقت میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ روس، چین اور ایران جیسے ’’ترمیم پسند‘‘ اور ’’موجودہ نظام سے منحرف‘‘ ممالک اپنے عالمی مفاد کیلئے اپنا عالمی ضابطہ تحریر کر رہے ہیں۔ القاعدہ اور داعش جیسی طاقتیں اپنا ضابطہ نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ مختلف رجحانات کا ٹکرائو بھی ہے۔ اگرچہ یہ عوامل روایتی جنگوں کی ناگزیریت کا سبب نہیں ہیں لیکن یہ عوامل روایتی جنگوں کی چنگاری کہیں بھی بھڑکا سکتے ہیں۔ انہوں نے دیگر سیاسی اور معاشی عوامل کا بھی ذکر کیا ہے، جن میں تنہائی (ISOLATIONISM)، پروٹیکشن ازم (PROTECTIONISM) اور قوم پرستی (NATIONALISM) جیسے عوامل شامل ہیں۔ انہوں نے امریکہ کو بھی تجویز دی ہے کہ وہ روایتی جنگوں کیلئے تیار رہے۔

اس تجزیے کی روشنی میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کیلئے یہ ایک چیلنج ہے۔ عہدِ جدید کے تمام رجحانات کے ٹکرائو کیلئے اس خطے کا میدان زیادہ موزوں ہے۔ روس، چین اور ایران جیسی طاقتوں کی پیش قدمی روکنے کیلئے بھی یہی خطہ تصادم کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ القاعدہ، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کیلئے میدانِ جنگ بھی یہی خطہ ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے بہت سے معاملات غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ اگر کسی ریاست کے امور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جیسے انتہا پسند شخص کے ہاتھ میں ہوں تو جیمز ڈیوبک نے جس خطرے کی نشاندہی کی ہے، وہ قرینِ قیاس محسوس ہوتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت وہاں کے عوام پر جو مظالم ڈھا رہا ہے، وہ بھی پاک بھارت کشیدگی کو کسی رخ پر لے جا سکتے ہیں۔ کشمیر تاریخی طور پر وادیٔ سندھ کا حصہ ہے۔ وہاں کے لوگ ظلم و استبداد کے باوجود بھارت سے آزادی کیلئے اپنی جدوجہد ترک نہیں کر رہے۔ سات لاکھ بھارتی افواج وہاں تعینات ہیں۔ اتنی بڑی فوج اگر وہاں نہتے لوگوں کو کنٹرول نہیں کر سکی تو پھر کچھ بھی ممکن ہے۔ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے۔

مذکورہ بالا عوامل کو کوئی بھی عالمی طاقت یا غیر ریاستی عناصر، رجحانات کا ٹکرائو روایتی جنگ کی چنگاری میں بدل سکتا ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ چنگاری بھڑک اٹھی تو آگ کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ مذکورہ بالا عوامل سے فائدہ اٹھانے کیلئے کسی بھی ملک کی قیادت کا غیر دانشمندانہ فیصلہ ظاہری جواز کیلئے کافی ہے۔ نریندر مودی کا پاگل پن معاملات کو بہت زیادہ خراب کر سکتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ جنگ شروع کرنا تو آسان ہے، اسے روکنا پھر کسی کیلئے آسان نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو کھلی پیشکش کی ہے کہ وہ پلوامہ واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کرے، وہ خود ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے لیکن اگر بھارت نے مہم جوئی کی تو پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔ پاک فوج کے ترجمان کا بیان بھی بروقت ہے تاکہ بھارتی پاگل پن کے ممکنہ نتائج سے اسے خبردار کیا جا سکے۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی اپروچ بالکل درست ہے۔ وہ امن کی بات کر رہی ہے لیکن مہم جوئی کا جواب دینے کیلئے بھی تیار ہے۔ پاکستان غیر روایتی جنگوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھا چکا ہے اور وہ انتہا پسندی کے خلاف حالتِ جنگ میں بھی ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ پوری پاکستانی قوم بشمول قومی و سیاسی قیادت اس معاملے پر یک زبان اور متحد ہے لیکن اسے بھارتی قیادت کے پاگل پن کے ساتھ ساتھ دیگر داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل اور رجحانات پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ بقول ساحر لدھیانوی

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسلِ آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امنِ عالم کا خون ہے آخر

اس لئے اے شریف انسانو!

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے

ساحر لدھیانوی کا یہ پیغام خاص طور پر بھارتی قیادت کیلئے ہے۔

تازہ ترین