• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں مجھے لائبریری کے افتتاح کے لئے بلایا گیا تو وہاں میری ملاقات پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی سے ہوئی۔ اس بزرگ اسکالر کی فارسی ادب پر متعدد دقیع کتابیں شائع ہو کر ادب شناسوں سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں مگر ان کی ایک کتاب ”آگہی کی جستجو میں“ ایک بہت عجیب و غریب کتاب ہے، اس میں انہوں نے انسان، عورت، محبت، زندگی، حکومت اور حکمران اور حقیقت کی حقیت کے عنوانات کے تحت نہایت دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ تاہم ”عورت“ کے موضوع پر ان کے مضمون پڑھے تو یہ مجھے احساس ہوا کہ ماضی کے بعض بڑے بڑے فلاسفر بھی عورت کے بارے میں کیسے جاہلانہ خیالات رکھتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کے حاصل مطالعہ کا نچوڑ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
عورت صنف نازک بھی ہے، ایک لحاظ سے نصف بہتر بھی ہے اور ایک حال سے انسان کو جنت سے نکلوانے والی بھی ہے اور ایک پہلو سے اپنے قدموں تلے جنت بھی رکھتی ہے، ایک مغربی مفکر نے کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ ”عورت زمین پر فطرت کی شاعری ہے، اسی طرح جس طرح آسمان پر ستارے اشعار ربانی ہیں، مرد اگر جلال کبریائی کا مظہر ہے، تو عورت جمال ربانی کی علامت ہے“۔
شوپنہائر نے کہا تھا کہ ایک معمولی شکل و صورت کی عورت ایک بدصورت عورت سے ہمیشہ نہایت تپاک سے ملتی ہے۔ اس کی نظر میں عورتوں اور مذہبی پیشواؤں کو آزادی دینا خطرناک ہے۔
نظشے کہتا ہے جب عورت نفرت کرے تو مرد کو اس سے ڈرنا چاہئے کیونکہ مرد کے دل میں بدی ہوتی ہے اور عورت کے دل میں بدطینتی۔ مرد یہ معلوم کرکے خوش ہوتا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں اور عورت یہ معلوم کرکے خوش ہوتی ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے۔ اس کے بقول عورتوں کا ایک ہی کام ہے کہ ان سے فوق البشر پیدا ہو۔ تقریباً ہر معاشرے نے عورت کو مرد سے کمتر ہی سمجھا ہے اور اس کے ساتھ ناروا سلوک کو جائز جانا ہے، ہندو معاشرے میں عورت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ادب و شعر میں اس کی بے وفائی اور ہرجائی پن کا ذکر عام ہے ایک ہندو شاعر نے کہا ہے،
تریا میں گن تین ہیں، اوگن لکھ ہزار
منگل گاوے، مل رچے، کوکھن انچن لال
یعنی عورت میں تین خوبیاں ہیں، گیت گاتی ہے، محبت کرتی ہے اور سپوت پیدا کرتی ہے لیکن خرابیاں ان گنت ہیں… گوتم بدھ نے بھی عورت سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ بدھ کے عزیز ترین شاگرد آنندا نے ایک روز بدھ سے پوچھا کہ استاد محترم! خواتین سے کیسا سلوک کیا جائے؟ گوتم بدھ نے کہا عورتوں سے مکمل طور پر بچنا چاہئے، پوچھا اگر اتفاق سے کوئی عورت سامنے آجائے تو پھر کیا کیا جائے؟ بدھ نے جواب دیا کہ اس صورت میں اس سے ہوشیار رہو، ایک چینی مفکر کا قول ہے عورت کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ خود فیصلہ کرے۔ شادی سے پہلے ماں باپ کا حکم مانے، شادی کے بعد شوہر کا حکم مانے، اور شوہر کے مرنے کے بعد بیٹوں کے حکم پر عمل کرے۔ ماضی کے دانشوروں اور فلسفیوں کے نظریات عام طور پر خواتین کے بارے میں کچھ اچھے نہیں ہیں غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے تعلقات عورتوں سے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ ویسے بھی ایک اچھا فلسفی عورتوں کی نظر میں عام طورپر اچھا شوہر نہیں ہوتا۔سقراط کی بیوی کے بارے میں مشہور ہے کہ نہایت بدمزاج اور بدزبان تھی، ایک بار وہ شاگردوں کو درس دے رہا تھا کہ بیگم صاحبہ آئیں، سخت غصے میں تھیں، سقراط کو سخت سست الفاظ کہے، یہاں تک کہ پانی سے بھرا گھڑا اس کے سرپر دے مارا اور چلی گئیں۔تمام شاگرد سخت وحشت زدہ ہوگئے۔ سقراط نے بڑے تحمل سے شاگردوں سے کہا پیارے بچو! فکر نہ کرو، بادل آیا، گرجا، برسا، اور چلاگیا۔ آجاؤ پھر درس شروع کرتے ہیں۔
سقراط بھی فکر معاش سے آزاد، قلندر منش آدمی تھا، کہتے ہیں کہ اس نے شہر بھر کی سب سے بدمزاج عورت تلاش کرکے اس سے شادی کی تھی، مقصود یہ تھا کہ اس کی بدمزاجی کو برداشت کرکے اپنے حوصلے اور ہمت کو تقویت دیتا رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بزرگ صوفیاء میں ابوالحسن خرقانی نے بھی بیوی کی بدمزاجی برداشت کرکے بڑے بڑے روحانی مدارج طے کئے تھے، کہتے ہیں ایرانی فلسفی بو علی سینا نے جب یہ سن کر کہ خرقان میں ابوالحسن ایک بہت بڑے صوفی اور ولی کامل ہیں تو اسکے دل میں ان سے ملاقات کا شوق پیدا ہوا، چنانچہ وہ الوالحسن خرقانی سے ملنے خرقان آیا اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ابوالحسن خرقانی کی زوجہ محترمہ نے پوچھا، کون ہے! اور کس سے ملنا ہے؟بو علی سینا نے کہا کہ میں اس شہر کے صوفی صاف دل اور ولی کامل حضرت ابوالحسن خرقانی کی زیارت کرنے آیا ہوں، وہ کہاں ہیں؟ اس خاتون نے کہا تم اسے صوفی، صاف دل، اور ولی کامل کہتے ہو وہ تو بالکل ایسے ہی ہے، تم اس سے مل کر کیا کرو گے؟ وہ نکما جنگل میں لکڑیاں چننے گیا ہوا ہے، ابھی آتا ہی ہوگا، بو علی سینا نے دل میں کہا کہ جس شخص کی بیوی اس کے بارے مں ایسے برے خیالات رکھتی ہو وہ کیا خاک ولی ہوگا، بہرحال اس نے فیصلہ کیا کہ شیخ سے مل کر ہی واپس جاؤں گا۔ وہ اس غرض سے جنگل میں گیا، دیکھا کہ حضرت ابو الحسن خرقانی تشریف لا رہے ہیں۔ اس طرح سے کہ لکڑیاں شیر پر لدی ہوئی ہیں بو علی سینا یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے، پوچھا، حضرت یہ کیا ماجرا ہے؟ گھر میں آپ کی بیوی آپ سے بدگمان، اور جنگل میں شیر آپ کا تابع فرمان؟ فرمایا ”بوعلی اگر ہم اس بکری (یعنی بیوی) کا بوجھ برداشت نہ کرتے تو یہ شیر بھی ہمارا بوجھ نہ اٹھاتا“۔
مشہور فلسفی سپائی نوزاجس استاد سے لاطینی زبان پڑھتا تھا، اس کی ایک حسین و جمیل لڑکی بھی تھی جس پر وہ فریفتہ ہوگیا تھا، لڑکی کو علم سے کچھ زیادہ شغف نہیں تھا اور نہ بیچارے سپائی نواز سے کچھ زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ اتفاق سے ایک اور عاشق قیمتی تحفے لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور اس لڑکی نے پھر سپائی نواز کو مڑ کر نہیں دیکھا۔ تاہم اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سپائی نواز فلسفی بن گیا۔ ایک اور فلسفی شوپنہا روم کی ایک ماہ پارہ کو دل دے بیٹھا۔ ایک دن وہ محبوبہ کے ساتھ سیر کرنے گیا تو راستے میں ان کی ملاقات شاعر باکرن سے ہوگئی۔ اس کی محبوبہ باکرن کے مردانہ حسن اور رئیسانہ ٹھاٹھ کی اسیر ہوگئی اور بیچارہ شوپنہاکر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اسی طرح نطشے ایک اطالوی خاتون پر ہزار جان سے فریفتہ ہوگیا لیکن اس اطالوی خاتون نے اسے سنکی سمجھ کر منہ نہ لگایا۔ شاید اسی لئے وہ عورت ذات ہی کا دشمن بن گیا۔ اپنی جوانی کے زمانے میں کانٹ صاحب کو بھی ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی، لڑکی بھی اس کی طرف مائل تھی اوراس انتظار میں تھی کہ کانٹ کب اسے رسمی طور پر شادی کرنے کے لئے کہتاہے۔ اتفاق سے انہی ایام میں وہ ایک مابعد الطبیعاتی گتھی سلجھانے میں ایسا مستغرق ہوا کہ اسے سر پیر کا ہوش ہی نہ رہا، وہ لڑکی ہر روز اس کے راستے میں کھڑی ہو جاتی کہ وہ اس کی جانب ملتفت ہو، لیکن کانٹ پر تو محویت کا عالم طاری تھا، کبھی نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، آخر زچ ہو کر اس لڑکی نے کسی اور شخص سے شادی کرلی، اس واقعہ پر کئی برس گزر گئے ایک دن اتفاق سے راستے میں کانٹ کی مڈ بھیڑ اس لڑکی سے ہوگئی جو اب ادھیڑ عمر کی عورت تھی، لڑکی نے کترا کر نکل جانا چاہا لیکن کانٹ نے اسے دیکھ لیا اور مسکرا کر نہایت شائستہ لہجے میں کہا ”خاتون مجھے افسوس ہے کہ میں آپ سے شادی نہیں کر سکوں گا“، ایسے ہی ایک اور فلسفی لائب نٹنیر کو بھی جوانی کے زمانے میں ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی، ایک دن اس نے اپنی محبوبہ سے درخواست کی کہ وہ اس سے شادی کرے، لڑکی بولی سوچ کر بتاؤنگی اور یوں لائب نٹنیز کو بھی سوچنے کا موقع مل گیااور پھر زندگی بھر سوچتا رہا اور شادی کرنے سے بال بال بچ گیا۔ اسی کا قول ہے کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آدمی کو شادی کرنا چاہئے یا نہیں پوری عمر درکار ہے۔ اگرچہ فلسفیوں میں ارسطو نے شادی بھی کی اوو بیوی سے اس کے تعلقات خوشگوار بھی رہے ۔اس نے اپنی محبوب بیوی کے ساتھ پرمسرت اور آسودگی سے زندگی گزاری لیکن عورت کے بارے میں اس کے خیالات بھی اچھے نہیں تھے، اس کی نظر میں مرد آقا اور عورت کنیز ہے، اس کے بقول عورت میں ایک تو قوت ارادی نہیں ہوتی، دوسرے اس میں شخصیت و کردار کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب قدرت کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہوتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے۔
تازہ ترین