• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فضائل و مناقب کا روشن باب: سیدناصدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ

مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی 

یہ ہمارا عقیدہ اور نظریہ ہے کہ تمام صحابۂ کرامؓ ہی ہمارے سروں کے تاج ہیں ،لیکن جو اعزاز اورسر بلندی سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے نصیب میں آئی، وہ کسی اور کے حصّے میں نہ آسکی ۔ پیدائش کے وقت والدین نے آپ کانام عبدالکعبہ ”کعبہ کا بندہ“ رکھا، مگر اسلام قبول کرلینے کے بعد نبی کریم ﷺ نے آپ کا نام بدل کر عبداللہ ”اللہ کا بندہ“ کردیا،ابوبکر آپؓ کی کنیت ،صدیق اورعتیق لقب تھے۔ آپؓ زیادہ تر اپنی کنیت اورلقب صدیق سے مشہور ہوئے ۔ایمان کی دولت سے سر فراز ہونے کے بعداپنامال ودولت ،اسلام کی اشاعت اور مظلوم مسلمان غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کرتے رہے ۔اسلام کے پہلے موذّن سیدنا بلالؓ کو بھی حضرت صدیق اکبرؓ ہی نے اُن کے ظالم آقا اُمیہ سے خرید کر آزاد کیا تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے سفر میں صدیق اکبر ؓ ہی حضور کریم ﷺ کے رفیق سفر تھے ، دورانِ سفر کئی بار ایسے جذبہ محبت والفت کے مظاہر سامنے آئے کہ جن کی مثال مشکل ہے، پھر غارِثور میں نبی کریم ﷺ کی خاطر داری کا اعزاز بھی نصیب ہوا،غارکے اندر تمام سوراخ بند کرنے کے بعد جب ایک سوراخ بند نہ ہوسکا اورنبی کریمﷺ آپ ؓ کے زانو پر سرِاقدس رکھ کر سو گئے تو کیڑے مکوڑے اور سانپ بچھو سے حفاظت کے لیے اُس ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ نے اپنی ایڑی رکھ دی، اُس میں ایک سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا، شدتِ تکلیف کے باوجود پہلو نہ بدلا کہ آپﷺ بے آرام نہ ہو جائیں، مگر آنسوؤں کے چندقطرے بے اختیار نکل کرنبی کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک پرجاگرے، جس سے آپ ﷺ جاگ گئے،وجہ پوچھی اور پھر آپ ﷺ نے اپنا لعابِ دہن آپ کے پیر کے زخم پرلگایا جس سے اسی وقت تکلیف کافورہوگئی۔

حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت اورشرف کی گواہی قرآن کریم نے دی ہے کہ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ آیت صاف بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکرؓصدیق اپنے لیےخوف زدہ نہ تھا، بلکہ نبی ﷺکے حوالے سے بے چین تھے کہ کہیں دشمن آپ ﷺ کو نقصان نہ پہنچادیں ۔

مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے دو یتیم بچوں سے خریدی گئی، زمین کی قیمت بھی حضرت ابوبکرؓصدیق نے ادا کی ۔ اس طرح قیامت تک مسجد نبوی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لیے صدقۂ جاریہ کاباعث بنی رہے گی۔سماجی اور رفاہی خدمات کے ساتھ ساتھ دیگر دینی و مذہبی سرگرمیوں میں بھی حضرت ابوبکرؓ پیش پیش تھے ،غزوۂ بدر ہو یااُحد ، خیبرہو یامعرکے، آپ نبی کریمﷺ کے ساتھ ساتھ تھے۔غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓ اپناسارا مال ومتاع لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، جب نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ گھر والوں کے لیے کیاچھوڑاہے ؟ تو فرمایا،اُن کے لیے اللہ اور اُس کے رسول ﷺکانام چھوڑآیا ہوں ، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ ایثار دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ آپ سےآگے کوئی نہیں بڑھ سکتا ۔نبی کریم ﷺکے وصال کے بعد جب صدیق اکبرؓ کی خلافت پر مسلمان جمع ہوئے اور بیعت عام ہوئی تو اس کے بعدصدیق اکبرؓنے تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگو، اللہ کی قسم نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجھے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یاظاہراً اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعاکی،لیکن مجھے خوف ہواکہ کوئی فتنہ نہ برپاہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجھے کوئی راحت نہیں، بلکہ یہ ایسابوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اند رنہیں پاتا اور اللہ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا ۔ کاش میری بجائے کوئی ایساشخص خلیفہ مقرر ہوتاجو اس بوجھ کو اٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا ،مجھے تم نے امیر بنایا ،حالانکہ میں تم میں سےبہتر نہیں ہوں ، اگر اچھاکام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا ۔جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں ،تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کےخلاف کرو ں تو میرا ساتھ چھوڑدینا“۔

حضرت ابوبکر صدیقؓنے اپنے ڈھائی سالہ عہدِخلافت میں لشکر اُسامہ ؓ کی روانگی ، فتنۂ ارتداد،منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے بعد عرب میں امن واستحکام کے ساتھ ساتھ ایران پر فوج کشی کا حکم دیا، اسی طرح شام اور روم کی طرف بھی پیش قدمی کی اور فتوحات کاسلسلہ جاری رہا ۔اپنی وفات سے قبل وصیت فرمائی کہ بیت المال سے ان ڈھائی برس میں جتنا روپیہ بطور وظیفہ مجھے ملتارہا، وہ سب میری زمین بیچ کر واپس بیت المال میں جمع کرایا جائے ،مجھے پرانے کپڑوں میں ہی سپرد خاک کردیا جائے کہ نئے کپڑے کے زندہ زیادہ ضرورت مندہوتے ہیں ۔٦٣ برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے ۔حضرت عمرؓنے نمازِجنازہ پڑھایا اور حجرۂ عائشہ ؓ میں حضوراکرمﷺ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔ 

سیرتِ صدیقی پر ایک نظر

٭ …نام عبداللہ ، کنیت ابو بکر جب کہ صدیقِ اکبر،عتیق،یارِ غار کے القاب سے آپ نے اسلامی تاریخ میں شہرت پائی۔٭ …والد کا نام ابو قحافہ عثمان اور والدہ کا اسم ِمبارک ام الخیر سلمیٰ بنت ِ صخر تھا۔٭…آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں رسول اکرم ﷺکی ولادتِ باسعادت سے دو سال دو ماہ قبل ہوئی۔ ٭ …زمانہ ٔجاہلیت میںکبھی شراب نہ پی اور بچپن ہی سے بت پرستی سے دور رہے۔٭ …زمانۂ جاہلیت میں دیت (خوں بہا) اور جرمانے کے مقدمات آپ کے سپرد تھے۔٭ …پیکرِ صدق و وفاابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک کچھ یوں تھا،رنگ سفید،اکہرا بدن،پیشانی کشادہ اور بلند جو ،اکثر عرق آلود رہتی ۔کمالِ حیا سے نگاہیں اکثر نیچی رہتیں ،جب کہ حنا اور کسم کا خضاب کیا کرتے تھے۔٭ …چار نکاح فرمائے۔پہلا نکاح قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے کیا، ان سے عبداللہؓ اور اسما ءؓ کی ولادت ہوئی۔دوسرا نکاح امِ رومان سے کیا، ان کے بطن سے عبدالرحمن ؓاور سیدہ عائشہ ؓ پیدا ہوئے۔ تیسرا نکاح اسماء بنت ِ عمیس سے ہوا ،ان سے محمد بن ابو بکر ؓ متولد ہوئے ،جب کہ چوتھا نکاح حبیبہ بنتِ خارجہ انصاریہ سے فرمایا، ان کے بطن سے ابو بکر صدیق ؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی امِ کلثوم ؓکی ولادت ہوئی۔(حاکم)٭ …دورِ خلافت کے کارہائے نمایاں میں منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف جہاد،فتنہ ارتداد کا سدِ باب ،عراق اور شام کی تسخیر اور قرآنِ کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنا شامل ہے۔٭ …امام نوویؒ نے فرمایا کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے رسول اکرمﷺ کی ایک سو بیالیس احادیثِ مبارکہ مروی ہیں ۔(شرح تہذیب )

تازہ ترین