مَیں سرافراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں
مَیں رہی شعلہ نوا شام کے درباروں میں
مَیں محبّت کی علامت، مَیں وفا کی تصویر
مَیں ہی چُنوائی گئی، قصر کی دیواروں میں
صنفِ نازک ہوں، مگر گردشِ دوراں ہے گواہ
کاٹ مجھ سی نہیں ملتی، کہیں تلواروں میں
مجھ سے دُنیا میں رفاقت کا چلن عام ہوا
نام آیا مِرا ایّوب کے غم خواروں میں
مَیں بندھے پَر سے بھی اُڑنے کا ہُنر جانتی ہوں
میری پرواز نظر آتی ہے، سیّاروں میں
قدر یوسفؑ کی زمانے کو بتائی مَیں نے
تم تو بیچ آئے، اُسے قصر کی دیواروں میں
(ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر،کراچی)