• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانے ادب اور داستانوں میں ’زلفِ بنگال‘ اور وہاں کے جادو کا کافی تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ پھر جب مشرقی بنگال کے اکثریتی مسلمانوں نے ہمارے پیارے پاکستان کا حصہ بننا قبول کر لیا تو ہمیں اُن میں کیڑوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ہم نے اُن کا ’کرم خوردہ‘ وجود اپنے آپ سے الگ کردیا اور پھر پچھتاوے کی چبھن سے بچنے کے لئے ان کو خود ہی ’چھوٹا بھائی‘ کہنا شروع کر دیا۔ غرضیکہ ہم نے کسی نہ کسی طرح ٹانگ ان کے اوپر رکھنے کا وطیرہ نہیں چھوڑا۔ اب ہمیں ایک اور شدید جھٹکا لگ رہا ہے جو کہ ہمارے ’خود بہلاوے‘ اور ’خیالی تسکین‘ کو ختم کر رہا ہے یعنی اب مشرقی بنگال یا بنگلہ دیش معاشی پہلووں سے ہم سے ’بڑا‘ ہو چکا ہے۔ مجھے علم ہے کہ ہم مر جائیں گے مگر اسے ’بڑا بھائی‘ تسلیم نہیں کریں گے۔

ہمارے بہت سے قارئین صاف بتا چکے ہیں کہ اُن کو معاشی بحث و تمحیص سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ بات اعداد و شمار سے شروع نہ کی جائے۔ اگر ہم ضرورت سے زیادہ سادگی کے تحت یہ کہہ دیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بنیادی فرق ’چادر اور چار دیواری‘ کے تصورات کی وجہ سے ہے تو شاید آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ لیکن بات کچھ اس طرح سے ہی ہے۔

بنگلہ دیش کی ترقی میں سب سے بڑا کرادر اُس کی ٹیکسٹائل کی صنعت کا ہے۔ جس کی وجہ سے ملبوسات برآمد کرنے میں وہ چین کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اُس سلسلے میں اُس کی برآمدات پاکستان اور ہندوستان کے اجتماعی حجم سے بھی زیادہ ہیں۔ بنگلہ دیش میں کپڑے کی صنعت کی پانچ ہزار ملیں یا فیکٹریاں ہیں اور اُن میں کام کرنے والے لوگوں میں 85فیصد خواتین ہیں۔ غرضیکہ بنگلہ دیش کا معاشی انقلاب وہاں کی خواتین کا مرہون منت ہے۔ پس ثابت ہوا کہ جب ہم اپنی خواتین کو ’چادر اور چاردیواری‘ تک محدود کرنے کے لئے مارا ماری کر رہے تھے مشرقی بنگال کی مسلمان خواتین فیکٹریوں کا رُخ کر رہی تھیں۔ یہ اہم ترین پہلو ہے جو کہ ہمارے معیشت دانوں اور دانشوروں کے ذہنی منظر نامے میں کبھی نہیں آسکتا۔

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا بنگلہ دیش سیاسی اور انتظامی پہلووں سے بہتر انداز میں چلایا جا رہا ہے یا نہیں۔ ابھی تک جتنے لوگ بھی بنگلہ دیش کے ترقیاتی منصوبوں سے منسلک رہے ہیں ان کی مشترکہ رائے ہے کہ وہاں بیگم حسینہ واجد کی حکومت کافی حد تک نا اہل ہے اور وہ سیاسی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ہر نوع کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ حکومت کی نا اہلی کے ثبوت میں یہ کہا جاتا ہے کہ نقل وحمل کے لئے مطلوب پل اور سڑکیں اب بھی ناپید ہیں اور اب تک لوگ کشتیوں کے ذریعے جو سفر کئی دنوں میں کرتے ہیں اس کو چند گھنٹوں میں کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کہ اس سلسلے میں وہ پاکستان سے کہیں زیادہ پسماندہ ہے۔ بنگلہ دیش کی نوکر شاہی کی استعداد کے بارے میں بھی بہت سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی کے کرپشن انڈکس میں بھی بنگلہ دیش 149ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 117ویں پر۔ تو اس پہلو سے بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں پائی جانے والی بدعنوانی اور رشوت ستانی میں بھی اتنا بڑا فرق نہیں ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو ’چھوٹے‘ سے ’بڑا‘ بنا دینے میں کوئی بنیادی کردار کر رہی ہو۔

ان سب پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ دونوں ملکوں میں بنیادی فرق ’چادر اور چار دیواری‘ کے بارے میں ہے۔ ’چادر اور چار دیواری‘ نظریاتی جہت اور حدود کی علامت ہے۔ اس کو آسان لفظوں میں کہنا چاہیں تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جاگیرداری دور کی اقدار اور نظریات کی گرفت ختم ہو چکی ہے یا بہت کم، جبکہ پاکستان میں اس کا اب بھی بول بالا ہے۔ یہاں ہمیں جاگیرداری دور کے معاشی اور نظریاتی ڈھانچے میں فرق کرنا چاہئے۔ بہت سے ناقدین کہیں گے کہ اب پاکستان میں زمینیں تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں اور جاگیرداری کا پہلے جیسا وجود باقی نہیں ہے۔ اگر اس دلیل کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جاگیرداری دور کے نظریات اور اقدار کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ ماؤزے تنگ نے چین میں سوشلزم کے معاشی انقلاب کو مضبوط کرنے کے لئے ثقافتی انقلاب برپا کیا تھا، جس میں جاگیردارانہ دور کی باقیماندہ اقدار و روایات کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ اس ثقافتی انقلاب میں بہت سی بے انصافیاں بھی ہوئیں لیکن بالآخر جب چین صنعتی دور میں داخل ہوا تو اس کے راستے میں جاگیرداری دور کے خیالات و نظریات حائل نہیں تھے۔

تاریخی طور پر مشرقی بنگال یا آج کا بنگلہ دیش جغرافیائی رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ہے مگر وہ سیاسی شعور کے پہلو سے ہمیشہ ’بڑا‘ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی بنیاد وہاں رکھی گئی تھی اور بنگالی مسلمانوں کی جدودجہد ہی پاکستان کی تخلیق کا بنیادی سبب تھی۔ مشرقی پاکستان میں جاگیرداری بہت پہلے ختم کر دی گئی تھی اور وہاں کے اکثریتی درمیانے طبقے کا مرکز کی جاگیردارانہ ریاست سے بنیادی تضاد تھا۔ جو فرق شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے طبقات میں تھا وہی دونوں صوبوں کے معاشی اور سماجی ڈھانچے میں بھی تھا۔ پاکستان سے علیحدگی تک مشرقی پاکستان ہی جمہوری تحریکوں کا بنیادی محرک ہوا کرتا تھا۔ اس تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو یہ امر حیران کن نہیں ہے کہ سیاسی شعور کی سطح پر آگے رہنے والے مشرقی بنگال کی خواتین نے فیکٹریوں کا رخ کیا۔ اب جب خواتین معاشی طور پر آزاد پیشہ ور گروہ ہوں گی تو وہ بچے پیدا کرتے ہوئے بھی اپنی معاشی استعداد کو اولیت دیں گی لہٰذا ان کی شرح پیدائش پاکستان سے تقریباً نصف ہے۔ اب جب بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی پاکستان سے زیادہ ہو چکی ہے (علیحدگی پر ان کی فی کس آمدنی مغربی پاکستان کا 61 فیصد تھی) تو پھر اسے’چھوٹا بھاٗئی‘ کس منہ سے کہیں گے!

تازہ ترین