• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور موجود وزیر اعظم نریندر مودی، دونوں ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کی حیثیت میں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اگرچہ آج بھارت کی حکمراں یہ جماعت ’’جنتا پارٹی‘‘ کی آف شوٹ ہے جو 1951میں تشکیل پانے والے ہندو بنیاد پرستوں کے پریشر گروپ جن سنگھ کی ارتقائی شکل بنی اور 1977میں یہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے بننے والے اتحاد سے 1980میں ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ بن گئی جو بھارت کو جدید سیکولر جمہوریہ بنانے والی آل انڈیا کانگریس کے مقابلے دوسری بڑی جماعت بنی۔ لیکن جب اس نے ہندو مت اور سیاست کو ملا کر مذہب کا کارڈ 1980ء کے انتخاب میں چلایا تو اسے فقط دو نشستیں ملیں، یوں یہ اس وقت بھارت کی واحد قومی جماعت کانگریس کے مقابل پارلیمانی حیثیت میں تو آ گئی لیکن آٹے میں نمک برابر بھی نہ تھی۔ پارٹی کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی تھے۔ آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ وہ ’’ہندو سیاست‘‘ کو کارڈ کی حد تک ہی استعمال کر رہے ہیں، خود بنیاد پرست ہندو نہیں ہیں۔ اس کی تصدیق ان کی فروری 1999میں مینار پاکستان پر حاضری سے ہوئی جس میں انہوں نے برصغیر میں نظریہ پاکستان کی حقیقت کو عملاً اور علامتاً کھل کر تسلیم کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف بھی وہ عملی سوچ سے آگے بڑھتے نظر آئے۔ بھارتی، پاکستانی اور دنیا کے میڈیا میں بھی لاہور ڈیکلریشن (فروری 1999) کے مجموعی تجزیوں سے یہ ہی اخذ ہوا کہ وزیراعظم واجپائی نے مئی 1998میں بھارت کے بیک وقت 4ایٹمی تجربات کے مقابلے میں پاکستان نے جو 5جوابی دھماکے کئے، اپنی امن کی سوچ کے مطابق عملاً پاکستان سے آگے بڑھنے والے مذاکرات کی راہ ہموار کر دی، وگرنہ یہ ان کے وزیراعظم ہونے کے باوجود کوئی آسان نہ تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو اپنے تیز تر پارلیمانی ارتقاء سے حکمران جماعت بن چکی تھی، میں صرف ہندو سیاست کو بطور ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے والے گھاگ سیاست دان ہی نہیں تھی بلکہ راشٹریہ سیوک سنگھ جیسے انتہاء پسند پریشر گروپ اب اس جماعت کے ہارڈ کور میں شامل تھے۔ اگرچہ کارگل کے بعد دونوں ملکوں میں شدید سرد مہری نے لاہور ڈیکلریشن کے مثبت نتائج کو برف میں دبا دیا تھا لیکن ہمارے جرنیلی صدر بھی کوئی وزیراعظم واجپائی سے کم امن کے علمبردار نہ نکلے، انہوں نے جب کھٹمنڈو میں سارک کی سربراہی کانفرنس میں اسٹیج پر جاتے ہوئے اپنی نشست پر بیٹھے ورلڈ میڈیا کے کیمروں کی بھرمار کے سامنے رک کر آنجہانی واجپائی سے جرأت مندانہ مصافحہ کیا تو یہ علامتی خیر سگالی اس قدر موثر ثابت ہوئی کہ سفارتی تاریخ میں اتنی جلد، اتنے سے علامتی اقدام سے اتنا بڑا نتیجہ نکلنے کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس نے پھر ایک بار دونوں ملکوں کے درمیان رکاوٹ بنے گلیشئر کو پگھلا دیا جس کے نتیجے میں آگرہ مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی لیکن اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند، وزیراعظم واجپائی کی امن پسند سوچ اوراُنہیں ثبوتاژ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے تھے جنہوں نے تمام متفقہ نکات کی روشنی میں مشترکہ اعلانیہ کی تیاری کے دوران کامیاب مذاکرات کے نتائج کو ثبوتاز کرنے میں بھارتی وزیراعظم پر اپنی مرضی کے اثر کا کھلا مظاہرہ پوری دنیا کے سامنے ببانگ دہل کیا اور کتنے ہی طے شدہ نکات کو ثبوتاژ کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بنیاد پرستی کے جہنم میں جھونک دیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بھارت کی یہ نئی لیکن ہندو مت کی قدیم پنجشالہ تھیوری کو لے کر چلنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کےمجرم کی حد تک ملزم کو منتخب وزیراعظم بنا دیا۔حیرت ہے کہ بھارت جیسے ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ایٹمی ملک کا وزیر اعظم اس قدر مذہبی جنونی ہے کہ اس نے بھارتی آئین میں استحکام کی ضمانت سیکولرازم کو ٹھکانے لگا کر چار ہی سال میں بھارت میں جنگی جنون اور خطے میں غلبے کے خناس کو کتنا بڑھا دیا ہے۔

اپریل 1985ء میں، میں روزنامہ جنگ کے لئے نمیبیا کی آزادی حمایت میں ناوابستہ ممالک کی تحریک کی کانفرنس کی کوریج کے لئے نئی دہلی گیا تو اس پیشہ ورانہ فریضے میں یہ بھی اضافہ کیا کہ قیام دہلی کا فائدہ اٹھا کر کچھ انٹرویو کئے جائیں۔ خیال آیا سیکولر بھارت میں ہندو مذہبی جماعت کے پارلیمانی بننے کی صورت بڑی توجہ طلب ہے، اگرچہ لوک سبھا میں نشستیں دو ہی ملی ہیں لیکن یہ ’’ہندو سیاست‘‘ کا کارڈ استعمال کر کے بڑھ بھی تو سکتی ہیں، سو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر جناب اٹل بہاری واجپائی کو فون کر کے انہیں تعارف کرایا کہ میں روزنامہ جنگ لاہور کا نمائندہ اور آپ سے انٹرویو کا خواہشمند ہوں۔ کہنے لگے، بھئی آپ کے تو اخباروں کا نام بھی جنگ ہے ہم تو امن والے ہیں کوئی روزنامہ امن ہو تو میں انٹرویو دوں۔ میں نے کہا ’’جنگ‘‘ دہلی سے ہی نکلا تھا اور دوسری جنگ عظیم کی زیادہ سے زیادہ خبریں دینے والا سب سے بڑا انڈین اخبار تھا۔ بہرحال ان کی مصروفیات کی وجہ سے انٹرویو تو نہ ہو سکا، جس کی انہوں نے معذرت بھی کی، لیکن واجپائی صاحب نے وزیر اعظم بن کر ثابت تو کیا کہ وہ واقعی امن والے ہی نہیں بلکہ عملاً بہت کچھ کرنے کے لئے تیار تھے۔ مودی انتہاپسند ہی نہیں وہ انتہا کے جارح مزاج وزیر اعظم ہیں جو برصغیر کو نہ جانے کس طرف لے جانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ان کا زبان و کلام اور اندازِ حکمرانی بھارت کے لئے پوری دنیا میں رسوائی کا سامان بن چکا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہمارے حکمران بھی ایک سے ایک بڑھ کر بدعنوان اور دھما چوکڑی والے رہے ہیں، لیکن مودی جنگ کی جس آگ سے کھیلنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ پاکستانی قوم آج اپنی سلامتی کی صلاحیت کے حوالے سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ انہیں حالات حاضرہ کے حوالے سے نظر نہیں آ رہا تو یہ ایک ارب پندرہ کروڑ بھارتیوں کے لئے انتہائی تشویشناک ہے۔ ایسے میں آنجہانی کی لامحالہ یاد آئی۔ بھارتیوں کو اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے یہی راہ ہے کہ وہ آنجہانی واجپائی کی راہ اختیار کرنے کے لئے مودی کو مجبور کریں اور خودکشی کی طرف مائل ہو کر نسلوں کی تباہی کے گناہ عظیم سے بچیں۔

تازہ ترین