• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ, معروف ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر قیصر سجاد سے خصوصی گفتگو

نومبر 2016ء میں حیدرآباد میں پہلی بار ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کا کیس رپورٹ ہوا، جس کے بعد مختلف اوقات میں چھے ماہ سے دس سال کے بچّوں، بڑوں اور بوڑھوں میں یہ مرض تشخیص ہوتا رہا۔ تاہم، رواں برس کے آغاز میں حیدرآباد، سانگھڑ اور کراچی میں نہ صرف اس مرض سے کئی افراد متاثرہ ہوئے، بلکہ 12افراد جان کی بازی بھی ہار گئے۔ جس کے بعد ہر خاص و عام کی زبان پر اسی کا تذکرہ ہے۔ عام ٹائی فائیڈ، ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ میں کیوں کرتبدیل ہوا، اس مرض کے لاحق ہونے کی وجوہ کیا ہیں اور وہ کون سی علامات ہیں، جن کے ظاہر ہونے پر معالج سے فوری رابطہ ضروری ہے اور کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ مرض سے بچا جا سکے؟ یہی سب کچھ جاننے کے لیے ہم نے گزشتہ دِنوں ڈاکٹر قیصر سجاد سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں واقع ان کے دفتر میں ایک تفصیلی نشست کی، جس کا احوال سوالاً جواباً پیشِ خدمت ہے۔

ڈاکٹر قیصر سجاد نے1981ء میں سندھ میڈیکل کالج، کراچی سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ ملازمت کا آغاز عباسی شہید اسپتال سے کیا۔ اسی دوران ای این ٹی میں ماسٹرز کیا اور اسی اسپتال سےبطور اسسٹنٹ پروفیسر (ای این ٹی) ریٹائر ہوئے۔ ان دِنوں نجی طور پر پریکٹس کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اور آرٹس کونسل آف (پاکستان) کراچی کی میڈیکل کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ طب کے شعبے میں ان کی خدمات پر انھیں مُلکی و غیر مُلکی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چُکا ہے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔

س:ایک عام فرد کے سمجھنے کے لیے بتائیں کہ ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کیا ہے؟

ج:ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کو سمجھنے سے قبل عام ٹائی فائیڈ کی وضاحت ضروری ہے، جو ایک بیکٹریا "Salmonella typh"کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ یہ مخصوص بیکٹریامُنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر، خون کے ذریعے پورے جسم میں پھیل جاتا ہے، خاص طور پرLymph glands اور تلّی وغیرہ میں۔ اس کے بعد مریض بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بیکٹریا آلودہ،گندے پانی میں پایا جاتا ہے۔ اور ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کی وجہ بھی یہی بیکٹریا ہے۔ تاہم، فرق یہ ہے کہ اس ٹائی فائیڈ کے جراثیم نے اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کرلی ہے، اِسی لیے اسے XDRT: Extensively Drug-Resistant Typhoid کہا جاتا ہے۔

س:سب سے پہلے برطانیہ سے ’’سُپر بگ‘‘ کا لفظ سامنے آیا، جس کے بعد کسی بھی مرض کا بڑھ کر ’’سُپربگ‘‘ ہو جانا، دُنیا بَھر میں عام ہوا، تو وہ کون سی وجوہ ہیں، جن کے باعث کوئی مرض سُپر بگ میں تبدیل ہوجاتا ہے؟

ج: دیکھیں، جراثیم کبھی ایک جیسے نہیں رہتے، ان میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر جراثیم میںکچھ ادویہ کے خلاف مدافعت پیدا ہو جائے، تو جس عارضےکے لیے وہ ادویہ استعمال کی جارہی ہوتی ہیں،اُس سے افاقہ نہیں ہوتا۔ جیساکہ ایکس ڈی آر ٹی بی یا اب ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ ہیں۔ جن مُمالک میںبھی ، کسی بھی وجہ سےاینٹی بائیوٹیکس کا استعمال عام ہوا یا پھر مریضوں نے نسخے کے مطابق دوا استعمال نہیں کی، تو وہاں ایکس ڈی آر کے کیسز زیادہ سامنے آئے۔ واضح رہے کہ مغربی مُمالک، خصوصاً امریکا، یورپ وغیرہ میں ان کیسز کی شرح کم ہے، کیوں کہ وہاں اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال ہمارے مُلک کی طرح اس قدر عام نہیں ہے۔

س:ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کے محرکّات پر کچھ روشنی ڈالیں۔ اچانک یہ مرض کیسے عام ہوگیا، علامات کیا ہیں؟

ج:پہلی بات تو یہ کہ یہ مرض قطعاً اچانک عام نہیں ہوا ۔ نومبر 2016ء میں جب پہلی بار حیدرآباد سے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کا کیس رپورٹ ہوا، تب طبّی ماہرین نے فوری طور پر محکمۂ صحت،سندھ کو مطلع کر دیا تھا کہ آلودہ پانی، اینٹی بائیوٹیکس کا غیرضروری استعمال ،سیلف میڈی کیشن اور غیر معیاری لیبارٹریز(کیوں کہ ان لیبارٹیر کی رپورٹس میں مرض کی تشخیص پازیٹو ہوتی ہے، جب کہ مریض ٹائی فائیڈ میں مبتلا نہیں ہوتا،اِسے طبّی اصطلاح میں false positive test رپورٹ کہا جاتا ہے۔جب کہ معالج اسی رپورٹ کی بنیاد پر علاج کرتا ہے، جو ٹائی فائیڈ کا ہوتا ہے )مرض کےتیزی سے پھیلائو کی وجہ بن سکتے ہیں،لیکن روک تھام کے ضمن میں کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب 2019ء میں اس عارضے کے کیسز زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کی علامات کا ذکر کیا جائے، تو ان میں تیز بخار، جسم، پیٹ میں درد، کبھی کبھار دست یا ڈائریا، بھوک ختم ہو جانا یا کم لگنا، قے، متلی اور کھانسی وغیرہ شامل ہیں۔

س:بیکٹریا کتنے عرصے میں فعال ہوتا ہے اور مرض کا دورانیہ کتنا ہے، تشخیص کس طرح ممکن ہے؟

ج:ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کا بیکٹریا جب جسم میں داخل ہوتا ہے، تو تقریباً ہفتے، دس دِن بعد علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر بروقت تشخیص کے بعد علاج معالجے میں تاخیر نہ ہو، تو عمومی طور پر دس سے بارہ روز میں مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔ چوں کہ یہ بیکٹریا مریض کی قوتِ مدافعت بہت کم کردیتا ہے، تو مکمل طور پر صحت یاب ہونے کے لیے 20سے 25روز درکار ہوتےہیں۔ رہی بات تشخیص کی، تو جب کوئی مریض مذکورہ علامات کے ساتھ معالج کے پاس آتا ہے، تو سب سے پہلے تو معمول کے ٹیسٹ، جن میں خون، پیشاب اور پاخانے کے ٹیسٹ، سینے کا ایکس رے وغیرہ شامل ہیں، تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان کی رپورٹ آنے پر حتمی تشخیص کے لیےایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کے مخصوص ٹیسٹ مثلاً Typhidot اورWidalتجویزکیے جاتے ہیں۔

س:ایک عام تاثر ہے کہ ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ میں ہر طرح کی اینٹی بائیوٹیکس بے اثر ثابت ہو رہی ہیں، تو پھر علاج کا طریقۂ کار کیا ہے؟

ج:پہلے تو عام ٹائی فائیڈ کا علاج گھر پر بھی ممکن تھا، لیکن اب مریض کو اسپتال داخل کروانا ضروری ہے، تاکہ معالج کی نگرانی میں علاج ہو سکے، کیوں کہ ماسوا ئےدو اینٹی بائیوٹیکس کے، تمام ادویہ بے اثر ثابت ہورہی ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ اگر یہ دونوں ادویہ بھی بے دریغ استعمال کی جانے لگیں، تو کہیں ان کی بھی افادیت ختم نہ ہوجائے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں لگ بھگ ساڑھے چھے لاکھ اتائی پریکٹس کر رہے ہیں، جو معمولی سے مرض میں بھی اینٹی بائیوٹیکس تجویز کردیتے ہیں،تو اس ضمن میں ان ادویہ کے غیر ضروری استعمال پر پابندی کے حوالے سے ایمرجینسی بنیادوں پر کام کی اشد ضرورت ہے۔

س:کیا یہ مرض ہر عُمر کے افراد کو متاثر کرتا ہے، نیز، مَرد، خواتین، بچّوں اور عُمر رسیدہ افراد میں سے کن میں شرح بُلند ہے؟

ج: ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ ہر عُمر کے افراد کو متاثر کرسکتا ہے، تاہم بچّوں اور بوڑھوں کی قوتِ مدافعت کم زور کے سبب انھیں جلد اپنا شکار بنا لیتا ہے۔

س:کراچی کے علاوہ اندرونِ سندھ کے کون کون سے علاقے زیادہ متاثر ہیں؟

ج: حیدرآباد اور سانگھڑ سمیت دیگر شہروں سے بھی کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، مگر چوں کہ اس حوالے سے باقاعدہ طور پر کوئی ڈیٹا مرتّب نہیں کیا جا رہا ، تو درست اعداد و شمار نہیں بتائے جاسکتے۔

س:اگر کوئی حاملہ متاثر ہو جائے، تو کیا شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے پر بھی اس کے کچھ اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں؟

ج:جی بالکل، بخار اور انفیکشن کے سبب شکمِ مادر میں پلنے والا بچّہ انتقال کر سکتا ہے ، کوئی پیدایشی نقص یا ذہنی و جسمانی معذوری بھی ہو سکتی ہے۔حتیٰ کہ حمل تک ضایع کرنے کی نوبت پیش آسکتی ہے۔ اِسی طرح خدانخواستہ اگر دودھ پلانے والی مائیںاس عارضے کا شکار ہوجائیں، تو دورانِ علاج نومولود کو اپنا دودھ نہ ہی پلائیں، تو بہتر ہے۔

س:اب تک کی خبروں کے مطابق اس ٹائی فائیڈ کے سبب 12افراد ہلاک ہوچُکے ہیں، تو ذرا مرض کی پیچیدگیوں کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج:اس مرض کی کئی پیچیدگیاں ہیں، مثلاً آنت کا پھٹ جانا، نمونیا، جگر اور دماغ کا متاثر ہوجانا، خون میں لوتھڑے بننا، جب کہ ڈائریا کی وجہ سے ڈی ہائی ڈریشن کے بھی امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

س:محکمۂ صحت، سندھ کے مطابق سندھ بَھر میں2016ء سے لے کر اب تک ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کے 8ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور زیادہ تر کیسز کراچی، حیدر آباد اور سانگھڑ سے رپورٹ ہوئے، تو مرض پر قابو پانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

ج: بدقسمتی سے اس ضمن میں جو ایک بنیادی اقدام ناگزیر ہے، وہ71برسوں سے تاحال کیا نہیں گیا۔یعنی ہر سطح تک عوام کو صاف پانی مہیّا کرنا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت صرف یہی ایک قدم اُٹھالے، تو اس موذی مرض ہی پر نہیں، بلکہ ناصاف پانی سے پھیلنے والے دیگر عوارض مثلاً ہیپاٹائٹس اے، ای اور ہیضے وغیرہ کی بھی روک تھام سہل ہوجائے گی۔

س:اس کی ویکسین سے متعلق بھی کچھ بتائیں کہ کس قدر سود مند ثابت ہو رہی ہے اور کس عُمر کے افراد کو دی جاسکتی ہے؟

ج: یہ ویکسین ہر عُمر کے افراد کے لیے مؤثر ہے،جو کیپسول اور انجیکشن کی صورت دستیاب ہے۔ویسے تو اس کی ایک ہی ڈوزکافی ہے، مگر بہتر ہوگا کہ مستند معالج سے رابطہ کرلیا جائے۔

س:وزیرِ صحت، سندھ کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2018ء تک مرض سے بچائو کے لیے ایک لاکھ سولہ ہزار بچّوں کو ویکسین دی گئی، جس میں چھے ماہ سے دس سال تک کے بچّے شامل تھے، تو کیا اس حد تک حفاظتی اقدامات کافی ہیں؟

ج:ہاں، علاج کی حد تک تو یہ اقدام ٹھیک ہے، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے، تو حکومتِ سندھ ترجیحی بنیادوں پر صاف پانی کی فراہمی سمیت اینٹی بائیوٹیکس کے غیر ضروری استعمال پر پابندی کے حوالے سے بھی ٹھوس اقدامات کرے۔

س:ماہرین نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ اگر سُپربگ پر قابو نہ پایا گیا، تو ممکن ہے کہ تپِ دق کی طرح پھیپھڑوں کے Resectionکی بھی نوبت پیش آجائے، تو کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟

ج: اگر پاکستان میں فوری طور پر اینٹی بائیوٹیکس کے غیر ضروری استعمال کے حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، تو عین ممکن ہے کہlung Resectionکی نوبت بھی آجائے۔

س: نجی اسپتالوں کے علاوہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز بھی تو اینٹی بائیوٹیکس کےمعاملے میں احتیاط نہیں برتتے ،بےدریغ تجویزکیے جاتے ہیں؟

ج:یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مستند ڈاکٹرز کی نسبت اتائی اینٹی بائیوٹیکس زیادہ تجویز کرتے ہیں، پھر اینٹی بائیوٹیکس کے بے دریغ استعمال کی کوئی ایک وجہ نہیں۔ لوگ خود بھی سیلف میڈی کیشن کرتے ہیں، تو میڈیکل اسٹورز والے بھی علامات سُن کر اینٹی بائیوٹیکس دے دیتے ہیں۔ ایک مستند معالج مرض کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا مریض کے لیے اینٹی بائیوٹیکس مفیدبھی ہیں یا نہیں،نیزمریض کویہ ادویہ کتنی ملی گرام اور کتنے عرصے تک استعمال کرنی ہیں،اس کا بھی فیصلہ معالج ہی کرتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ مریض اپنی مرضی سے دوچار دِن اینٹی بائیوٹیکس استعمال کر کے چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ڈاکٹر کی ہدایت کے برعکس کم ملی گرام کی دوا کھاتے ہیں۔ بعض اوقات میڈیکل اسٹور والے کے پاس وہ دوا نہیں ہوتی، تو اسی فارمولے میں کوئی دوسری دوا دے دی جاتی ہے۔ تو یہ سب درست نہیں۔ کوئی بھی مرض لاحق ہونے کی صورت میں صرف مستند معالج سے رجوع کریں اور اُسی کی ہدایات پر عمل کریں۔ اگر ادویہ کا کورس مکمل ہونے سے قبل صحت یاب ہوجائیں، تب بھی علاج کا دورانیہ لازماً مکمل کریں۔ کیوں کہ علاج کا دورانیہ مکمل نہ کرنے کی صورت میں مزید مضر اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔

س:محکمۂ صحت، سندھ نے اعلان کیا ہے کہ سُپر بگ ٹائی فائیڈ سے بچائو کے لیے رواں ماہ سے ویکسی نیشن مہم کا باقاعدہ آغاز کیا جا رہا ہے، تو کیا یہ مہم خاصی تاخیر سے شروع نہیں کی جا رہی ہے؟

ج: درحقیقت صوبۂ سندھ کے پاس ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی نہیں ہے، چلیں تاخیر ہی سے سہی، کم از کم ویکسی نیشن مہم کا آغاز کیا تو جارہا ہے۔محکمۂ صحت کے مطابق پہلے مرحلے میں چھے ماہ سے5سال کے بچّوں کو قطرے پلائے جائیں گے،جب کہ دوسرے مرحلے میں5سے15سال کے بچّوں کو ویکسین پلائی جائے گی، کیاہی اچھا ہو کہ حکومت اس پروگرام میںنوجوانوں اور بڑی عُمرکے لوگوں کو بھی شامل کرلے۔

س:پاکستان سے امریکا اور برطانیہ جانے والوں میں ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کی تشخیص کے بعد امریکا نے اپنے شہریوں کے لیے وارننگ جاری کر دی ہے، جو کافی الارمنگ سیچویشن ہے۔ اس ضمن میں حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر کیا اقدامات کرنے چاہئیں اور اس ضمن میں ذرائع ابلاغ کسی طرح ایک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں؟

ج:جولائی 2018ء میں امریکا نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے کے لیے احتیاط کا مشورہ دیا تھا اور یونائیٹڈ اسٹیٹ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریویشن نے لیول 2کا الرٹ جاری کیا تھا اور اب تو خاصی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ اس ضمن میں حکومتِ پاکستان نے مرحلہ وار ویکسی نیشن کے آغاز کا اعلان کیا ہے،جو ایک اچھا اقدام ہے بہ شرطیکہ مہم جلد از جلد شروع کی جائے۔ رہی بات ذرائع ابلاغ کی، تو یہ مُلک کا چوتھا ستون ہے، جس کے ذریعے ہر سطح تک مرض کی علامات، بچائو اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کر کے اسے بہت مؤثر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

س:مریض کی نگہداشت کے حوالے سے اہلِ خانہ کن باتوں کا خاص خیال رکھیں؟

ج: سب سے ضروری تو مستند معالج سے علاج کروانا ہے۔ پھر مریض کی ادویہ، کھانے پینے اور آرام کا خاص خیال رکھا جائے۔ نیز،اُسے صاف ستھرا اور پُرسُکون ماحول بھی فراہم کریں۔

س:احتیاطی تدابیر کے حوالے سےبھی بتائیں؟

ج: صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، اُبال کر صاف پانی پئیں یا پھر کسی اور طریقے سے پانی صاف کریں۔ ہاتھوں کو بار بارصابن سے دھوئیں ،خصوصاً کھانے سے قبل اور بیت الخلاء کے استعمال کے بعد۔برتن اور باورچی خانہ صاف رکھیں، کھانا ہمیشہ ڈھک کر رکھیں، کُھلے مقامات پر فروخت کیے جانے والا کھانا یا دیگر اشیاء نہ کھائیں، پھل اور سبزیاں اُبلے پانی سے دھوئیں۔ ایسا کچّا گوشت اور سمندری غذا، جس میں جراثیم کا خدشہ ہو، استعمال نہ کریں۔ پیپر کرنسی بھی جراثیم کے پھیلائو کا ذریعہ ہے، لہٰذا نوٹ گننے کے بعد بھی ہاتھ اچھی طرح دھوئیں، جب کہ کسی ریستوران وغیرہ میں کھانا کھانے سے قبل صفائی کے حوالے سےاچھی طرح اطمینان کرلیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اب گرمیوں کی آمد آمد ہے اور عین ممکن ہے کہ بازاری برف کے استعمال کے نتیجے میں مزید کیسز رپورٹ ہوں، لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ بازاری برف استعمال نہ کریں۔ بصورتِ دیگر اچھی طرح تسلّی کر لی جائے۔ ہمارے یہاں حکومت اور عوام دونوں ہی کی ترجیحات میں’’صحت‘‘ شامل نہیں اور جب تک ترجیحاً صحت کا خیال نہیں رکھا جائے گا۔ مختلف امراض اسی طرح پَھلتے پُھولتے رہیں گے۔

(عکّاسی:اسرائیل انصاری)

تازہ ترین