• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان وہ تعلقات جو سرد مہری کا شکار تھے، ایک بار پھر گرمجوشی میں بدل گئے۔ پاک سعودی تعلقات میں سرد مہری نے اُس وقت جنم لیا جب سعودیہ یمن جنگ کے موقع پر سعودی عرب نے پاکستان سے اپنی افواج بھیجنے کی درخواست کی۔ اس وقت کی حکومت یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے گئی جس نے سعودیہ یمن جنگ کا حصہ نہ بننے اور پاک افواج سعودیہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تاہم پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران اس حساس مسئلے پر کئی روز تک جاری رہنے والی بحث میں کچھ سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے دھواں دھار مخالفانہ تقاریر کیں۔ جس سے سعودی حکومت کی دل شکنی ہوئی اور پاک سعودی تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے شاہی فیملی کے ساتھ ذاتی تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ جس کے بعد نہ صرف سعودیہ بلکہ یو اے ای سے بھی پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی۔ گو حکومت اور وزیراعظم عمران خان، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان اور پاک سعودی تعلقات میں بہتری کا کریڈٹ لے رہے ہیں جبکہ سعودی عرب سے تعلقات کو سرد مہری سے گرمجوشی میں بدلنے کا کریڈٹ اصل میں دو اہم شخصیات کو جاتا ہے جن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی شامل ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 22 اگست 2018ء کو سعودی عرب کا اہم دورہ کیا، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ون ٹو ون ملاقات کی اور سعودی سلامتی کیلئے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اسلام آباد میں متعین سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے معتمد خاص تصور کئے جاتے ہیں، نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پہلے کی سطح پر استوار ہوئے۔ نواف بن سعید المالکی سفیر بننے سے قبل پاکستان میں سعودی عرب کے ملٹری اتاشی کے عہدے پر فائز تھے اور ان کے جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ سے انتہائی قریبی اور ذاتی تعلقات تھے۔ سعودی عرب سے ملنے والے 12ارب ڈالر میں 3ارب ڈالر کیش اور 9ارب ڈالر کا ادھار تیل شامل ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورے میں سعودی سفیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے کامیاب دورے سے وطن واپسی پر شاہی طیارے کی سیڑھی پر سعودی عرب کے دور اندیش، متحرک اور مدبر سفیر نواف بن سعید المالکی کے کاندھے کو ایک سے زائد بار تھپتھپاتے ہوئے اپنے دورہ پاکستان کی کامیابی پر ان کی کئی مہینوں کی شبانہ روز کاوشوں کو بے حد سراہا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے میں اپوزیشن کو مدعو نہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر پاکستان کے بزنس مینوں کی اپیکس باڈی (ایف پی سی سی آئی) کے نمائندوں، صدر اور سینئر نائب صدر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ جو اُن دنوں اسلام آباد میں موجود تھے، کو عشایئے میں مدعو نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ عشائیہ پی ٹی آئی حکومت کا ذاتی عشائیہ تھا۔ اس کے برعکس دورہ بھارت میں معروف بھارتی بزنس مین مکیش امبانی نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ون ٹو ون ملاقات کی اور سعودی آئل کمپنی آرامکو کے ساتھ بھارت میں جوائنٹ وینچر کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ممالک کے درمیان تعلقات کبھی ذاتی نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ یہ تعلقات ہمیشہ دو ممالک کی سطح پر ہوتے ہیں اور ان تعلقات کو ذاتی نوعیت کا سمجھنے والے ہمیشہ غلط فہمیوں کا شکار رہتے ہیں۔ سعودی حکومت اور پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ سعودی امداد کسی ذاتی شخصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کیلئے ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفر الحق اور سینیٹر مشاہد اللہ خان سے ملاقات کے دوران سعودی ولی عہد نے کہا کہ شریف برادران ہمارے دل میں رہتے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے اس جملے کہ ’’میں سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہوں‘‘ نے ہر پاکستانی کا دل موہ لیا ہے جبکہ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی بھی کچھ اسی طرح کے جذبات پاکستان کیلئے رکھتے ہیں۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ حکومت نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران انہیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز ’’نشان پاکستان‘‘ سے نوازا جو اس سے قبل سعودی فرمانرواں شاہ فیصل مرحوم کو حکومت پاکستان کی طرف سے عطا کیا گیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت پاکستان اس موقع پر سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی جو پاکستان کے حقیقی دوست اور پاکستانیوں کیلئے اپنے دل میں بڑی محبت رکھتے ہیں، کو بھی قومی اعزاز دینے کا اعلان کرتی۔

سعودی ولی عہد نے ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا جب پاکستان مشکل وقت سے دوچار ہے اور اپنے قریبی دوستوں سے مدد چاہتا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے دوران 20ارب ڈالر کے 7 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ ایسے میں جب گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری (FDI) نہ ہونے کے برابر ہے، سعودی سرمایہ کاری پاکستان کیلئے یقیناً کارگر ثابت ہو گی اور سعودی عرب کی پیروی میں دوسرے خلیجی ممالک بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوں گے مگر ماضی میں پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتی سطح پر طے پانے والے معاہدے اور مفاہمتی یادداشت صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود رہتے ہیں۔سعودی عرب نے ایم او یوز پر دستخط کرکے اپنا کمٹمنٹ دے دیا ہے، اب حکومت کو چاہئے کہ وہ ان معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین