• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ کسی سے بھی ہو، پلّہ کسی کا بھی بھاری ہو، اندر ایک عجب سا خلفشار رہتا ہے۔جنگ کے دنوں کا احساس زندگی کے تمام دنوں سے الگ، مختلف اور جدا ہوتا ہے۔ کچھ بے چینی، کچھ خوف اور اندیشے اور سب سے بڑھ کر شدید بے یقینی۔یہ سب میں یوں کہہ رہا ہو ں کہ اسّی بیاسی برس کی زندگی کے دوران میں نے تین بھرپور جنگیں اور کتنی ہی خوں ریزیاں دیکھی ہیں۔انسان بھی عجب مخلوق ہے، جانتا ہے کہ جنگ اپنے ساتھ کیسے کیسے عذاب لاتی ہے پھر بھی لڑتاہے، جھگڑتا ہے، تباہی لاتا ہے، بربادی کے اسباب پیدا کرتا ہے، جانتا ہے کہ عورتیں لُٹیں گی اور بچے دربدر ہوں گے پھر بھی بات بات پر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتاہے۔ یہی نہیں، ساتھ ساتھ کہتا جاتا ہے کہ لڑنا بری بات ہے اور جنگ سے نفرت، امن سے محبت کے ایسے نعرے لگاتا ہے کہ صاف کھوکھلے نظر آتے ہیں۔

میں نے جب سنہ تیس کے آخری برسوں میں ہوش سنبھالا، دوسر ی عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ میرے والد دنیا بھر کی نشر گاہوں کی خبریں سنتے اور رات کو سونے سے پہلے میری والدہ کو دنیا کے ہر محاذ کے حالات سناتے تھے۔کیا یورپ اور کیا افریقہ، والدہ خبریں سنتی جاتی تھیں اور مسلسل ہوں ہوں کئے جاتی تھیں۔میں، ایک نو عمر لڑکا صاف محسوس کرتا تھا کہ معاملہ کچھ بے ڈھب ہے، کہیں کچھ ہورہا ہے یا ہونے کو ہے، یعنی لڑائی کے شعلے ہندوستان کی طرف چلے آرہے ہیں۔ اُس وقت ٹیلی وژن نام کی تو کوئی شے تھی نہیں، سنیما گھروں میں ہندوستانی فلموں کے ساتھ نیوز ریل یا فلمی خبر نامہ دکھایا جاتا تھا، میں نے اسی میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھیں۔لیکن لڑکپن کے اپنے ہی مزے ہوتے ہیں۔ ہم سارے لڑکے خندقوں کی کھدائی دیکھا کرتے اور جب فرضی حملے کا سائر ن بجتا تو انہی خندقوں میں فرضی پناہ لینے والوں میں ہم ہی آگے آگے ہوتے۔ اُس زمانے میںبھی جنگ کے ترانے ہوا کرتے تھے، ہم ایک ریکارڈ سنا کرتے تھے جس میں کوئی عورت گاتی تھی :اب اڑوسن پڑوسن چاہے جو کہے، میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے۔سارے لڑکے مل کر گاتے:ڈرتا کیا ہے، ہمّت کرکے بھرتی ہو جا فوج میں، جب گرے گا بم کا گولا کود پڑیو ہوج(حوض) میں۔گھر میں کھانے پینے کا سامان جمع ہو، کھڑکیوں کے شیشے کالے ہوں اورآگ بجھانے کے لئے پانی اور ریت سے بھری بالٹیاں رکھی جائیں۔ یہ سارے دکھ گھر کے بڑوں نے اٹھائے۔ جنگ کے بادل جاپان کی جانب سے بنگال تک آکر لوٹ گئے۔ ہم نے اسکول کی صبح کی اسمبلی میں اپنے استاد مسٹر سائمن کی زبانی خبر سنی کہ جاپان پر ایک بم گرا ہے جو کہنے کو ذرّے کے برابر ہے لیکن اس نے دو جزیرے دنیا کے نقشے سے مٹا دئیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنگ خاتمے کو پہنچی اور آزادی کی تحریک نے سر اٹھایا۔ اس کے آگے کا قصہ بہتر ہوگا تاریخ کی زبانی سنئے۔

میں نے دوسری جنگ ان دنوں دیکھی جب میں صحافت کے میدان میں قدم جما رہا تھا۔ یہ بات سنہ پینسٹھ کی ہے۔ایوب خان کا زمانہ تھا اور کشمیر میں دونوں طرف سے چھیڑ چھاڑ ہورہی تھی۔ اسی دوران پاکستان کے علاقے گجرات کے گاؤں اعوان شریف پر ہندوستانی توپ خانے نے گولے پھینکے۔ نو دس گاؤں والے ہلاک ہوئے اور ملک میں تشویش پھیل گئی کیونکہ گولے کسی متنازع علاقے میں نہیں بلکہ سرزمین پاکستان پر گرے تھے۔ میرے اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے ہدایت کی کہ صبح ہوتے ہی راولپنڈی کے راستے اعوان شریف چلا جاؤں اور وہاں کی خبریں بھیجوں۔ میں وہاں گیا تو خبروں کی ریل پیل تھی۔کشمیر میں حالات کی ہانڈی میں اُبال آرہا تھا اور صاف نظر آتا تھا کہ کچھ ہوکر رہے گا۔ میرے ایڈیٹر نے ہدایت کی کہ میں وہیں راولپنڈی میں رہوں اور خبریں بھیجتا رہوں۔جس روز خیال تھا کہ جمّوں کے قریب پاکستانی فوج کوئی بہت ہی اہم کارروائی کرے گی، فوج والے ہم صحافیوں کو چھمب اور جوڑیاں کے محاذ پر لے گئے۔ لگتا تھا کہ ہم جنگ کا کوئی اہم معرکہ دیکھیں گے، خبر آئی کہ ہندوستانی فوج نے لاہور سیکٹر میں حملہ کردیا ہے۔ ہم نے فوج کو اپنا مال اسباب لپیٹ کر لاہور کے محاذ کی طرف جاتے دیکھا۔ اس کے بعد بھرپور لڑائی شروع ہوگئی اور میں بدستور اپنے اخبار کو خبریں بھیجتا رہا۔

میں نے سنہ اکہتّر میں تیسری جنگ دیکھی۔یہ معرکہ اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہو رہا تھا۔ ایک طرف پاکستانی فوج تھی اور دوسری جانب مقامی آبادی کی مکتی باہنی،جس کی پشت پر موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کے بقول،بھارت تھا۔میں صحافت کے میدان میں تجربہ کار ہوچکا تھا اور1965 ء کی میری کارگزاری سب کو یاد تھی۔ میرے اخبار کے مالکان نے مجھ سے کہا کہ میں مشرقی پاکستان چلا جاؤں اور وہاں سے خبریں بھیجوں۔ اس پر میری بیوی نے مطالبہ کیا کہ میری ایک لاکھ روپے کی انشورنس کرائی جائے(آج ایک لاکھ کی رقم سن کر ہنسنا منع ہے)۔ اخبار کے مالکان نہیں مانے اور میں ڈھاکہ جانے، شکست کے منظر دیکھنے اور جنگی قیدی بننے سے بچ گیا۔مگر ہائے، میں کراچی ہی میں رہا مگر اُس سرکاری پریس ریلیز کا ترجمہ کرنا پڑا جس میں ہتھیار ڈالنے کی سرکاری خبر تھی جس کا کمال یہ تھا کہ اس میں نہ ہتھیار کا نام تھا نہ ڈالے جانے کا ذکر تھا۔بہت جی مچلا کہ اس پر سرخی جماؤں:کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ اس کے باوجود لوگ سمجھ گئے۔ کتنے ہی صدمے سے مرگئے۔ کتنے ہی دل پاش پاش ہوئے، ان کی کرچیاں آج تک چبھتی ہیں۔وقت بدل گیا ہے۔ آج کی جنگ گولے اور گولی کی نہیں رہی۔ جدید سائنس نے لڑائی کے تیور ہی بدل ڈالے ہیں، اب توپ و تفنگ کی جگہ کمپیوٹر اوردور بین کی جگہ سٹیلائٹ نے لے لی ہے۔ اب لبلبی پر انگلی نہیں رکھی جاتی،اب ایک بٹن دبایا جاتا ہے۔اب میزائل دندناتے ہیں، بم کے گولے نہیں گرتے۔ اب حوض میں کودنے سے کچھ نہیں ہوتا۔

تازہ ترین