• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلوامہ واقعہ پر بھارت کا جو ردِ عمل سامنے آیا، یہی توقع کی جا رہی تھی کہ بھارت کی جانب سے بڑھکبازی شروع کر دی جائے گی کیونکہ بھارتی انتخابات کی آمد آمد ہے اور وہاں پر انتخابات پر کامیابی کا ایک موثر گُر پاکستان دشمنی ہے۔ پھر بھارت کو اُس وقت اِس کا زعم بھی بہت ہے کہ وہ عالمی برادری میں ایک مقام حاصل کر چکا ہے۔ اس ردِ عمل کا اِس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں کہ بھارتی اور عالمی رائے عامہ میں اِس تصور کو پختہ کر دیا جائے کہ بقول بھارت کے پاکستان دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور اِس سے وہ یہ مقصد بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان میں بلوچستان اور فرقہ وارانہ دہشت گردی میں بھارت کا جو کردار ہے اُس پر دنیا کی توجہ مرکوز نہ ہو سکے۔ بھارت کے ان ہتھکنڈوں کی سب سے بڑی گواہی کلبھوشن یادیو کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ بھارت اس گمان میں ہے کہ وہ اس پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا یہ دھول اپنی آنکھوں میں صرف اُس وقت تک برداشت کرتی ہے جب تک کہ یہ دھول اُس کے اپنے مفاد میں ہو۔ مارک ٹوئن نے کہا تھا کہ ’’بینکر اچھے وقتوں کا بہترین ساتھی ہوتا ہے، موسم اچھا ہو تو زبردستی اپنی چھتری ہاتھ میں تھما دیتا ہے لیکن جیسے ہی چھینٹے پڑنے لگتے ہیں تو کہتا ہے کہ لائو میری چھتری‘‘۔ بس اِس میں بینکر کی جگہ بین الاقوامی تعلق لکھ لو، بات یہی ہو گی۔ بھارت کے اِس وقت دنیا کے بینکروں سے ایسے تعلقات ہیں کہ وہ بھارت کو چھتری پکڑا رہے ہیں۔ ذرا حالات بگڑے اور چھتری کی واپسی لازمی ہو جائے گی لیکن بھارت کے عزائم واضح ہیں کہ وہ اِس نو آبادیاتی دور کے ورثے کے طور پر ملے مسائل کو حل کرنے کی بجائے حرزِجاں بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ آزادی کے وقت سے آج تک ضرورت اس بات کی تھی کہ نو آبادیاتی دور کے منفی اثرات کو منفی کر دیا جائے۔ خواہش ہو تو یہ ممکن بھی ہے۔ وطن عزیز کی اس وقت سفارتی پوزیشن کمزور محسوس ہو رہی ہے اور ہم اپنے کالموں میں اس کا بار بار تذکرہ بھی کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ بین الاقوامی طاقتیں اس وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو کشیدگی میں ڈھلتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ بھارت کے طیاروں نے جب پہلی بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو سب ممالک نے اس خلاف ورزی کی مذمت کرنے کے بجائے دونوں ممالک کو تحمل کا مشورہ دیا حالانکہ خلاف ورزی کی مذمت لازمی تھی لیکن ہمارے دوستوں نے بھی اس کی مذمت نہیں کی۔ سفارتی کمزوری اس حد تک ہے کہ جو ہماری طاقت پر تکیہ کرتے تھے اب وہ سشماسوراج کواو آئی سی میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ بھارت کی 1969ء رباط کانفرنس سے یہ خواہش تھی کہ وہ او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کرے لیکن ہر دور کے پاکستانی حکمران کی کامیاب خارجہ پالیسی کے سبب سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا لیکن اب دعوت نامہ بھارت کو جاری ہو چکا ہے۔ پھر پلوامہ کے واقعہ کے بعد عمران خان نے جو تقریر کی اس میں از خود ہی دہشت گردی پر بات کر ڈالی۔ بھارت جب دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتا ہے تو اس وقت اس کی مراد کشمیر میں جاری تحریک آزادی سے وابستہ افراد ہوتے ہیں۔ کیا ہم ان کے حوالے سے یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ان کے حوالے سے ہمارا وہی موقف ہے جو جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے برہان وانی شہید کے حوالے سے کیا تھا اور بھارت اس سے بہت تلملایا بھی تھا۔ عمران خان جیسی ہی غلطی پرویز مشرف نے بھی کی تھی کہ مشترکہ اعلامیہ میں یہ کہہ دیا کہ آئندہ پاکستان کی سرزمین سے کوئی دہشت گردی نہیں ہو گی۔ یہ اعلامیہ آج تک گلے پڑا ہوا ہے اور انڈیا تو گلے پڑنے پر تلا بیٹھا تھا۔ ہاں اب ممکن ہے کہ ہوا نکل گئی ہو۔ جب ہماری افواج نے اگلے دن ہی بدلہ لے کر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی افواج جذبے، صلاحیت اور وسائل میں اتنی مضبوط ہے کہ وہ وطن عزیز پر پڑنے والی آنکھیں نکال کر دشمن کی ہتھیلی پر رکھ سکتی ہے۔ عوام بھی شانہ بشانہ ہے۔ عوام کو مزید اطمینان دلانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا آغاز کرے تا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال سے نجات حاصل کی جا سکے کیونکہ قومی قیادت کو جیلوں میں رکھ کر اور اُن کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کے سبب سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ نہ صرف موجودہ حالات میں بلکہ ہر حالت میں ملک کو ایک پریشانی اور عدم استحکام میں مبتلا رکھے گا۔ خدارا ہوش کرو۔

تازہ ترین