• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جن گھرانوں میں لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں، عموماً وہاں کم عمری میں شادی کرنے کا رواج زور پکڑ لیتا ہے۔ کم عمری کی شادی (Child Marriage) ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک متاثر ہیں۔ امریکا جیسے لبرل معاشرے کی کئی ریاستوں میں بھی کم عمری میں شادیاں کردی جاتی ہیں۔2009ءسے 2010ء کے دوران امریکا کی 30ریاستوں میں ڈیڑھ لاکھ بچیوں کی شادی کم عمری میں کی گئی۔ بھارت میں کم عمری میں ہونے والی شادیوں کی تیز ترین شرح سے سب واقف ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ’’ ڈیمو گرافکس آف چائلڈ میرجز اِن پاکستان‘‘ کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق، ہمارے یہاں21فیصد بچیوںکی شادی جبری طور پر کم عمری میں کروادی جاتی ہے۔ ان شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ کےدیہی اور خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں میں پائی جاتی ہے، جو بیشتر مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔

کم عمری کی شادیوں کے خلاف دنیا بھر کے ممالک یک زبان نظر آتے ہیں، جس کے سدباب کے لیے تقریباًتمام ممالک میںمختلف قوانین بنائے گئے ہیں۔ ان قوانین کی رو سے کئی ممالک میں شادی کے لیے کم از کم عمر 16سال، کہیں 17سال تو کہیں 18سال مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان بھی کم عمری کی شادیوں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے گاہے بگاہے قوانین مرتب کرتا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم قدم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی جانب سے حال ہی میں منظور کیا گیا ’’چائلڈ میرج بل‘‘ ہے، جس کے تحت ملک کے چاروں صوبوں میں بچوں اور بچیوں کی شادی کی عمر 18سال مقرر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس بل کی منظوری سے قبل شادی کے لیےکم ازکم عمر 16سال تھی ۔

کم عمری میں شادی کے خلاف بل 30جنوری2019ء کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کےاجلاس میں منظور کیا گیا۔ کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کے ایکٹ میں ترمیم کا بل گزشتہ برس 18دسمبر کوسینیٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ سندھ اسمبلی میں ایک ایسا ہی بل 2014ء میں پیش کیا گیا تھا، جسے29اپریل 2014ء کو صوبے بھر میں نافذ کرنے کے لیے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ اس بل کو’’سندھ چائلڈ میرجز رِیسٹرینٹ بل 2014ء‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کی رو سے، شادی کے لیے مرد اور عورت دونوں کی کم از کم عمر 18سال مقرر کی گئی تھی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے3سال تک قید با مشقت کی سزامقرر کی گئی تھی۔

اس طرز کا پہلا قانون برطانوی انتظامیہ کی جانب سےچائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے نام سے 1929ء میں متعارف کروایا گیا تھا، جس کا اطلاق قیامِ پاکستان کے بعد بھی رہا۔ اس قانون میں لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر14سال اور لڑکوں کے لیے18سال مقرر کی گئی تھی۔1961ء میں مسلم عائلی قوانین آرڈیننس نے لڑکیوں کے لیےشادی کی کم ازکم عمر 14سال سے بڑھا کر 16سال کردی تھی اور اس قانون کا اطلاق2010ء میں 18ویں ترمیم کی منظور ی تک عمل میں رہا۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کے لیے ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا تھا۔ 2014ء میںاس وقت کی حکومت کی جانب سے ’چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ‘ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔2017ء میں اپوزیشن پارٹی کی جانب سے کم عمری میں بچوں کی شادی کی ممانعت کاترمیمی بل 2017ء پاکستان کے ایوان بالا میں پیش کیا گیا، جسے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ نے اسلامی احکامات اور روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ بالآخر2019ء کے پہلے ماہ میں زیرِ بحث بل کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے کے سبب اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا، جس کے تحت وفاقی سطح پر بچوں کی شادی کی کم ازکم عمر 18سال مقرر کردی گئی ہے۔

اس بل کی منظوری اور کم عمری میں شادی کے خلاف قانون بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ان قوانین پر عمل درآمد کیا جانا بھی ضروری ہے کیونکہ صوبہ سندھ میں تقریباً5برس قبل شادی کی کم ازکم عمر 18سال مقرر کردی گئی تھی لیکن اس کے باوجو د عالمی ادارہ برائے صحت کے اعدادوشمار صوبہ سندھ میں کم عمری میں شادی کی سب سے زیادہ شرح کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف قوانین بنائے جائیں بلکہ لوگوں میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق شعور بھی بیدار کیا جائے، جس کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی کو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

تازہ ترین