• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگ امن سے دشمنی کا نا م ہے جس میں نقصان ہی نقصان ہے۔ یہ فلسفہ ازلی جنگجو ممالک نے جان لیا اور اپنے اپنے عوام کی خاطر جنگوں سے دور ہو گئے۔ صرف ایک صدی کی بات ہے یورپ میں فرانس برطانوی راج کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ پرتگال اطالوی راج سے جنگ کرتا رہا، خود جرمنی دو جنگوں میں تباہ ہو گیا اور پھر سب مل کر بیٹھے۔ نہ صرف سرحدیں ختم کر دیں بلکہ اپنی اپنی کرنسیاں ختم کر کے آج سکون سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کے عوام ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں، نئی نئی ایجادوں میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور روس نے انہی جنگوں سے جرمنی اور کوریا کو تقسیم کر دیا۔ جاپان بھی جنگ ہار کر امریکہ کی بھینٹ چڑھ گیا، اِن ہارے ہوئے ملکوں نے اِسی جنگ سے سبق سیکھا اور جنگ سے ہاتھ اٹھا کر خاموشی سے اپنے مستقبل کی پلاننگ کی اور مثبت سوچ کو جنم دیا، یہ ممالک ہار کر بھی جیتنے والے ممالک سے کہیں آگے جا چکے ہیں۔ غور کریں، آج ہارا ہوا جرمنی روس سے کتنا آگے ہے۔ ہارا ہوا جاپان امریکہ کی سب سے بڑی انڈسٹری آٹو موبائل، خاموشی سے چِت کر چکا ہے۔ برطانیہ کبھی جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، آہستہ آہستہ سمٹ کر گریٹ برٹن ہو کر رہ گیا ہے۔ کوریا ہی کو لے لیں، اُس نے بھی جنگ ہاری پھر خود ہمارے ملک پاکستان کا 5سالہ ترقی کا پروگرام اپنایا اور اُس کو بڑھاتے بڑھاتے 4دہائیوں میں سستی انرجی پیدا کر کے جاپان اور چین کے مقابلے پر اتر آیا اور آٹو موبائل سے لے کر ٹی وی، موبائل ٹیکنالوجی میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ خود چین ہانگ کانگ کو برطانیہ سے صرف 100سال میں واپس لے کر برطانیہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کو نہ صرف نیچا دکھا کر کاغذی پاور بنا دیا ہے بلکہ آج امریکہ میں اکثریتی چیزیں صرف میڈ ان چائنا نظر آتی ہیں۔ آج امریکہ چائنا سے ادھار مال خرید کر اس کا سب سے بڑا مقروض ہو چکا ہے اور اب صرف چند ہی بڑی صنعتوں تک محدود رہ گیا ہے۔ دنیا کے جس خطے کی طرف ہم نظریں دوڑائیں ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے مگر ہم مسلمان ملکوں کی طرف دیکھیں۔ جن میں بعض نے صرف نصف صدی میں غلامی سے نجات پائی اور پہلے تیل، گیس اور معدنیات کے طفیل ملکوں کی مدد کی مگر آپس کی چپقلشوں، دشمنیوں کو پروان چڑھا کر اپنے عوام کا امن اور سکون برباد کر دیا، اُنہوں نے یورپ اور مشرق سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پھر اُن کو یہی یورپ، امریکہ، مشرقی طاقتیں بڑی ہوشیاری اور عقلمندی سے مسائل میں الجھا کر خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہیں۔

ہم نے بھی بدقسمتی سے 71برس میں 3بڑی جنگوں اور ہزاروں چھوٹی موٹی جھڑپوں اور آدھا ملک گنوا کر بھی امریکی اور یورپین ممالک کی چالوں کو نہیں سمجھا، انہوں نے ہمیں آپس میں کشمیر کے نام پر کیوں الجھایا ہوا ہے۔ کیوں برطانیہ نے جاتے جاتے لڑائی کا بیچ بو دیا۔ خصوصاً بھارتی حکمراں روزِ اول سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت ماتا کے 2ٹکڑے کروائے ہیںچنانچہ وہ پاکستان کو روزِ اول سے دشمن سمجھتے ہیں۔ یاد کیجئے یہ وہی بھارت ہے جس نے پہلی جنگ 1965میں ہم سے ہاری تھی۔ ہماری فوجیں چھمپ جوڑیاں کو عبور کر کے جموں میں داخل ہونے والی تھیں کہ اس نے جنگ بندی کا واویلا کر کے کشمیر میں رائے شماری کا وعدہ کیا اور پھر روس سے ساز باز کر کے ہماری فوجوں کو واپس کروایا، پھر ہم پہ 1971کی جنگ تھوپی اور ملک دو لخت ہو گیا۔ اس پر بھی بھارت نے بس نہیں کیا، بلوچستان اور ہمارے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز قائم کیے اور اب وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اب جب کہ دشمنی میں کھل کر بھارت سامنے آگیا ہے تو میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ کچھ دو اور کچھ لو والے فارمولے پر عمل کرے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے،جو آنے والے الیکشن کے لیے حماقت کر بیٹھے، ابھی صرف 2جہاز گنوائے ہیں، ابھی انتظار کرنا چاہئے۔

بڑی بڑ ی طاقتوں سے مل کر کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل کرنے کا قدرت نے یہ موقع عمران خان کو عطا کیا ہے۔ خدارا! اس کو نہ گنوائیں۔ جب تک کوئی مثبت جواب بھارت سے نہ ملے انگریزی میں کہاوت ہے کہ ویٹ اینڈ سی، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے تک انتظار کریں۔ قوم آپ کے ساتھ ہے۔ اب تو حزب مخالف بھی آپ کے ساتھ ہوچکی ہے، امن کے خاطر ہی سہی۔ جلدی نہ کریں عجلت کے فیصلے دیر پا نہیںہوتے۔

تازہ ترین