• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری عادت ہے کہ جب طبیعت ذرا ’’ڈھلمل‘‘ یعنی ڈھیلی سی ہو تو بلھے شاہؒ، میاں محمد بخشؒ یا حضرت سلطان باہوؒ کا کلام سنتا ہوں۔ دانشور لکھتے رہتے ہیں کہ انسان عادت کا اسیر ہوتا ہے۔ انسانی عظمت کا تقاضا تو عادت کو اپنا اسیر بنانا ہے اور عادت اس وقت تک انسان کی ماتحتی قبول نہیں کرتی جب تک وہ نفس کو پوری طرح مطیع و فرمانبردار نہیں بنا لیتا۔ اس موضوع پہ پھر کبھی۔ آج طبیعت ذرا ڈھیلی تھی تو حضرت بلھے شاہؒ کا کلام سننے کو جی چاہا۔ آپ اسے بیٹری چارج کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ قلم چلانے کے لئے بیٹری چارج کرنا پڑتی ہے چاہے آپ اسے مادی علوم سے چارج کریں یا کتابِ عشق کا ورق کھول کر چارج کریں۔ حضرت بلھے شاہؒ کا ایک شعر سن کر میں سوچنے لگا کہ آپ جیسے ولی کامل نے یہ بات ’’ایویں‘‘ (یونہی) ہی نہیں لکھی کیونکہ اللہ کا غلام اور عشق حقیقی میں غرق انسان جھوٹ بولنے یا لکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ شعر کچھ یوں ہے

ہیرے دا کوئی مل نہ جانے، کھوٹے سکے چلدے ویکھے

اوہدی رحمت دے نال بندے پانی اُتے چلدے ویکھے

’’اللہ پاک کی رحمت سے پانی کے اوپر چلتے بندے دیکھے‘‘ سن کر مجھے خیال آیا کہ بابا بلھے شاہؒ جیسے ولی اللہ یہ فرما رہے ہیں تو یقیناً سچ ہے لیکن عقل کے غلام سوچیں گے یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ خیال آتے ہی میرے ہاتھ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ (داتا گنج بخش) کی کتاب کشف المحجوب کی طرف اٹھے۔ یہ کتاب میرے سرہانے رکھی ہوئی کتابوں کے اوپر تشریف فرما رہتی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں بکنے والی اس کتاب کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ تصوف پر اسے چند بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے اور روحانی بزرگوں کا فرمان ہے کہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو وہ اس کتاب کو مرشد بنا لے تو روحانیت کی راہ کا کامیاب مسافر بن جاتا ہے۔ ہارون صاحب فرماتے ہیں کہ کشف المحجوب پروفیسر رفیق اختر پر بیت گئی ہے۔ تبھی وہ صوفی کے مقام پر پہنچے ہیں۔ میرا اُن سے 1998ء میں پہلی اور آخری بار رابطہ ہوا پھر اُن تک رسائی ممکن نہ رہی۔ ملاقات کو تقریباً 55سال گزر چکے ہیں۔ تب فون پہ بات ہو رہی تھی تو کہا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے بائیں کان میں کچھ خرابی ہے۔ اس کا علاج کر لیں ورنہ بعد میں تنگ کرے گا۔‘‘ میں اندھا اور عقل کا غلام تھا۔ ایک کان سے بات سن کر دوسرے سے نکال دی۔ تین سال بعد دفتر میں بیٹھا تھا تو ایک دم بایاں کان بہنے لگا۔ مسئلہ بگڑتا چلا گیا تو یاد آیا کہ ایک صاحبِ نگاہ نے تین برس قبل وارننگ دی تھی۔ دنیاوی علم کے خزانے اللہ پاک کے عطا کردہ روحانی علم کے سامنے مچھر کے ایک پَر کے برابر ہوتے ہیں۔ جب روحانی آنکھ سے پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں تو وہ لمحوں میں ہزاروں لاکھوں میلوں کا سفر کرتی اور پتھر کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق اللہ پاک کا فرمان ہے کہ جب کوئی نوافل ادا کر کے میرا قرب حاصل کر لیتا ہے تو میں اس کے ہاتھ ،پائوں، آنکھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ مطلب یہ کہ عبادت، ریاضت اور زہد قرب الہٰی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس ہستی کے مقام کا اندازہ کیجئے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اس کی آنکھ اور ہاتھ پاؤں بن جاتے ہیں۔ اس کی نگاہوں سے حجابات اٹھا لیے جاتے ہیں اور اس کی زبان سے نکلا ہوا لفظ پتھر پہ لکیر ہوتا ہے۔ محض عقل اس مقام اور کیفیت کو نہیں سمجھ سکتی۔ یہ عشق کے معاملات ہیں جبکہ عقل اور عشق کے درمیان سمندر حائل ہے۔ بقول اقبال ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لب ِبام ابھی

یہ میرے رب کی عطا ہے۔ وہ پیغمبروں نبیوں کو بھی عطا کرتا ہے اور اپنے پیارے بندوں کو بھی عطا کرتا ہے۔ نبیوں پیغمبروں کے مقامات تک کوئی نہیں پہنچ سکتا لیکن انسان دینے والے کی حد بھی متعین نہیں کر سکتا۔ وہ قادر مطلق ہے۔ اس کی عطا کو علم کے پیمانوں سے ناپا اور تولا نہیں جا سکتا۔ کیا کوئی مسلمان بقائم ہوش و حواس یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ جیسا کامل ولی غلط بیانی کر سکتا ہے یا مبالغہ آمیزی؟ سلطان الہند حضرت معین الدین چشتیؒ جس ہستی کو ناقصاں را پیر کامل اور کاملاں را رہنما کہیں، کیا ہم اُن کے مقام کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ نے جب لکھا بندے ’’پانی اوپر چلتے دیکھے‘‘ تو میرا وجدان مجھے کشف المحجوب کی طرف لے گیا۔ صفحہ کھولا تو اتفاق سے درج ذیل واقعات سامنے آ گئے جنہیں حضرت علی ہجویریؒ نے سینکڑوں برس قبل قلمبند کیا تھا۔ حضرت مالک ابن دینارؒ کے بارے میں لکھتے ہیں

’’آپ حضرت حسن بصریؒ کے دوست تھے۔ آپ کا باپ دینار غلام تھا اور آپ اس کی غلامی کے زمانے ہی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے عمر میں لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کی توبہ کی داستان عجیب ہے۔ ایک رات لہو و لعب کے شوقین لوگوں کے ایک گروہ کے ساتھ گانے بجانے میں مشغول ہوئے۔ جب تھک کر سب سو گئے تو اسی ستار سے جس کو وہ بجا رہے تھے، اُنہیں یہ آواز سنائی دی:یا مَالِکُ! مَالَکَ اَنْتَ لَا تَتُوْب۔ یعنی اے مالک! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تُو توبہ نہیں کرتا۔ یہ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت حسن بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر سچے دل سے توبہ کی۔

آپ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ کشتی میں سوار ہوئے۔ اسی کشتی میں ایک سوداگر کا ایک موتی کھو گیا۔ آپ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ مگر آپ کی فقیرانہ صورت دیکھ کر آپ پر یہ تہمت لگائی گئی کہ یہ آپ ہی نے چوری کیا ہے۔ آپ نے تھوڑی دیر ملتجیانہ نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھا کہ دریا سے بے شمار مچھلیاں اپنے اپنے مونہوں میں ایک ایک موتی لئے سطح آب پر نمودار ہو گئیں اور سب نے آپ کی طرف منہ کر دیئے۔ آپ نے ایک کے منہ سے موتی لے کر تہمت لگانے والے کو دے دیا اور خود کشتی سے نکل کر دریا میں داخل ہو گئے اور چلتے ہوئے کنارے پر پہنچ گئے۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی آخر الزمان ہیں۔ کشف المحجوب میں درج شدہ ایسے سینکڑوں واقعات یا روایات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے صدیوں بعد کی ہیں کیونکہ میرے رب اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا کبھی بھی اللہ کے دوستوں سے خالی نہیں ہو گی۔ کبھی ان سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے اور کبھی یہ پردے میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یقیناً قرب الہٰی سے فیض یافتہ ہستیاں موجود ہیں اور وہ ابد تک موجود رہیں گی۔ صاحبان علم و دانش کو ایسے واقعات تشکیک میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ بھلا مردہ لکڑی سے آواز کیسے آسکتی ہے، مچھلیاں پانی سے موتی منہ میں لئے کیونکر نمودار ہو سکتی ہیں، کوئی انسان پانی پہ کیسے چل سکتا ہے معجزات تو صرف نبیوں کو عطا ہوئے؟ افسوس خدا کی خدائی سے انکار، رب کی عطا پہ شک، حدیث قدسی کو سمجھنے سے عاری؟ علامہ اقبال یاد آئے

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

تازہ ترین