• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انقلاب حقیقت سے بعید ایک ایسا خواب بن کر رہ گیا ہے جس کی تعبیر معجزوں سے مشروط ہے لہٰذا جب بھی کوئی انقلاب کی لن ترانی کرنے لگتا ہے یا تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا یا پھر اس کے پس پشت کسی ”ہاتھ“ کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ دنیا میں انقلاب آتے اور اپنے ملک و قوم کی حالت سدھارتے رہے ہیں، ہمارے پڑوس میں چین، ایران کے انقلاب اپنے عوام کو ایک سمت مہیا کر چکے ہیں۔ پاکستانی سرزمین بھی اس کیلئے زرخیز بلکہ درکار جملہ مطلوبہ عوامل سے مالا مال ہے لیکن اختیار کے اصل قوتوں نے گزشتہ6 عشروں میں کامیاب حکمت عملی کے تحت تبدیلی کے ہر عمل کو جس طرح رسوا سربازار کیا ہے اس کے بعد پاکستانی عوام اس طرح کے کسی نعرے کیلئے خود کو آمادہ کرنے میں سہولت محسوس نہیں کرتے۔
پاکستانی عوام قیام پاکستان کے فوری بعد اپنے آدرشوں کی تکمیل کیلئے بار بار برسرپیکار ہوئے لیکن ہر بار نعرے لگانے والے نے یا تو مایوس کیا یا پھر اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اور سامراجی عزائم کیلئے اس طرح کی تحریک کو یوں بدنام و ناکام کیا کہ لوگ اپنے کئے پر اپنے آپ کو کوسنے اور پچھتاوے پر مجبور دکھائی دیئے۔اس لئے عوام اب سڑکوں پر آنے کی عیاشی سے کتراتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی سیاسی حکومت ناکام ہوجاتی اسٹیبلشمنٹ، فیوڈل لارڈز اور سیاسی مولوی اپنے گٹھ جوڑ سے اسے چلتے رہنے نہ دیتے، مسائل پیدا کر دیئے جاتے اور سیاسی حکومت سے عوام کو متنفر کرا کر سڑکوں پر لایا جاتا اور پھر ”صالحین“ کی حکومت کا مژدہ سناکر یا تو جرنیل براہ راست بیٹھ جاتے یا جاگیرداروں اور مولوی صاحبان کو ساتھ شریک کرلیا جاتا… اور یوں دس بارہ سال کیلئے ملک و ملت کے مستقبل سے کھیلا جاتا، جب عوام سارے عمل کا ادراک کرلیتے اور جاگتے ہوئے حرکت کرنے لگتے تو یہ تکون عوامی غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر پھر سیاسی حکومت کو لے آتی اور پھر وہی کھیل دہرایا جاتا… پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت تک یہی کھیل جاری ہے تاہم امریکہ اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین ”قلبی“ تعلقات میں شکوک کے بعد اب پاکستان میں سیاسی حکومت کی جگہ سیاسی حکومت ہی ترجیح قرار پائی ہے۔ اگرچہ کلی خود مختاری کی سند سیاسی جماعتوں کے ابن الوقتی کے باوجود ملنا پھر بھی دشوار ہے لیکن سیاسی سیٹ اپ کی موجودگی کسی نہ کسی صورت بہرکیف ضروری سمجھی جارہی ہے۔ آمریتوں نے سیاسی مولوی اور موقع پرست سیاستدانوں کے ذریعے قوم کو جس طرح تقسیم در تقسیم کردیا ہے، اس بیماری کے باعث ملک کے طول و عرض میں کوئی ایک سیاسی یا مذہبی شخصیت تو کجا، کوئی ایسی جماعت بھی نہیں ہے جس پر اجماع امت ہوسکے لہٰذا انقلاب کیونکر ممکن ہے!!بلاشبہ ڈاکٹر طاہر القادری کے مینار پاکستان کے جلسے کیلئے ”تاریخی“ کا لفظ زیر قلم لایا جاسکتا ہے۔ اس سے کم سہی مگر عمران خان کے جلسے بھی اپنے وقت کے ”تاریخی“ شاہکار تھے لیکن کون سا انقلاب برپاہوا!!؟ یا اس کے مستقبل میں کیا امکانات ہیں!!؟ راقم نے ان دنوں ایک تحریر میں اپنی یہ حقیر رائے دی تھی کہ پاکستان میں بڑے جلسے کرنا اب ایک ایسا آرٹ بن گیا ہے جو جتنا اس فن سے روشناس ہوگا اسی قدر وہ اپنے جلسوں، جلوسوں میں جاذب نظر رنگ بھرنے کی کاریگری دکھا سکے گا…!! ڈاکٹر قادری صاحب کی تنظیم کو اس حوالے سے ملکہ حاصل ہے، پاکستان ہی پر کیا موقوف، دنیا بھر میں اس طرح کے فقید المثال اجتماعات ان کے کریڈٹ پر ہیں لیکن جہاں تک ان اجتماعات کے وسیلے سے عوامی زندگی یا مروجہ نظام میں انقلابی تبدیلی کا سچ ہے وہ بہرصورت ادھورا ہے… اسلام آباد مارچ جیسے وقتی جوش سے بھی ممکن ہے کہ کسی کی بگڑی بن جائے لیکن ملک و ملت کی تقدیر سنورنے کا عمل، تسلسل و مستقل مزاجی کا متقاضی ہے… یہ تحریر اسکوائر نہیں اسلام آباد ہے، جس کے پہلو میں فروکش پنڈی کی سرشت میں کسی ایسی تبدیلی کی تخم موجود ہی نہیں، جس کا پھل اسے راس نہ آئے اور اگر پنڈی ہی کی کسی خواہش پر ڈاکٹر صاحب کے من نے انگڑائی لی ہے تو پھر ایسی تبدیلی عوام کے کس کام کی۔ہم جیسے کم علم اور فیصلہ ساز ایوانوں سے دور لوگ اگر مگر کی دنیا میں ہی غوطہ زن رہ سکتے ہیں لیکن بہرنوع برسرزمین اشکالات سے مرتب سچ یہ بھی ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب محض تندور گرم دیکھتے ہوئے پاکستان آپہنچے ہوں اور ان کی منشاء کسی دلبر جاناں کی جنبش آبرو نے بھی سنواری ہو، تو پھر یہ ایک مہم جوئی کے ماسوا اور کیا ہوسکتا ہے!!؟ ایک واہمہ یہ بھی زیرگردش ہے کہ اس طبع آزمائی کے پس پشت ایک ایسی بیرونی قوت ہے جو طالبان اور ان کے ہم مسلک عناصر کیخلاف مذہبی قوت ہی کے ذریعے ایک دیوار بنانے کی خواہاں ہے اور اس رائے سے متعلق حلقے اس کے لئے ڈاکٹر قادری صاحب کی دہشت گردی کیخلاف جہد مسلسل، فتوؤں اور بیرون ملک رابطوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور اس دلیل سے یہ بات بھی نتھی کرتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ طالبان مخالف ایم کیو ایم ڈاکٹر صاحب کا ہر اول دستہ ہے جبکہ طالبان کی حامی جماعتیں مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جے یو آئی کے تمام دھڑے قادری صاحب کی مخالف ہیں… یہ طالب علم اس تھیوری سے متفق نہیں، البتہ اس میں اس قدر صداقت تو ضرور ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی صورت میں پہلی مرتبہ بریلوی مکتبہ فکر جو بنیادی طور پر صوفیاء کے طریق کار پر کاربند رہا ہے، اب طاقت کے استعمال کا بھی اعلان کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ سارا عمل سیاست کے دائرے تک ہی محدود ہو اور متذکرہ خدشات محض سیاسی ہی ہوں۔ وطن عزیز میں مسلکوں اور فرقوں کے درمیان پہلے ہی خلیج موجود ہے، جس میں مزید وسعت کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔
ملک کے سنجیدہ حلقے ڈاکٹر قادری صاحب کے یوں اسلام آباد پر چڑھائی کو اس لئے بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں کہ پھر اس طرح تو ہر کوئی اپنے مطالبات کی خاطر لاؤ لشکر لے کر اسلام آباد جانے کا راستہ ڈھونڈ نکالے گا اور سب سے زیادہ تو یہ ”طریقہ کار“ طالبان کو سوٹ کرتا ہے، ماضی میں اس طرح کے مظاہرے ہم سوات میں مولانا صوفی محمد کے جلسوں کے علاوہ ایم ایم اے کے جلسوں میں بھی دیکھ چکے ہیں… طالبان اگر اسے کارزیاں ہی خیال کریں تو طاہر القادری صاحب کی مخالف جماعتیں، جیسے مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، جے یو آئی، جماعت اسلامی بھی اس طرح اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتی ہیں، اگر ڈاکٹر قادری صاحب کی ایک جماعت کی دھمکی پر نظام کچھ کا کچھ ہوسکتا ہے تو پھر دفاع پاکستان کونسل میں شامل42 جماعتیں اور ملی یکجہتی کونسل میں شامل26 جماعتیں بھلا کیونکر اس ”کارخیر“ کو کسی اور کے حوالے کرنے پر آمادہ ہوجائیں گی!!؟ کہ اسلام آباد، اسلام ہی کی طرح سب کو عزیز ہے!!
گزارش یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا قابل اعتبار لیڈر یا جماعت ایسی نہیں ہے کہ جسکی پکار پر عوام لبیک کہتے ہوئے نظام کہن کو زمیں بوس کرسکیں، بنابریں بتدریج تبدیلی کا عمل ہی ملک و ملت کی خیرخواہی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جلسے جلوس اور مارچ کئے جائیں اور استحصالی عناصر کو ان کے ذریعے دباؤ میں بھی رکھا جائے اور اس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مقابل انتخابات میں ایک اتحاد یا محاذ تشکیل دے کر تیسری قوت کا ظہور بھی ممکن ہوسکتا ہے جو خوش آئند بھی ہوگا لیکن خدا نہ کرے کہ یہ عوامی قوت کے مظاہرے نظام کے لپیٹے جانے یا انتخابات کے التوا کا سبب بن سکیں کہ جمہوریت سے ہی ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور انتخابی عمل اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔
تازہ ترین