گزشتہ دنوں میرپورخاص میں صوبائی وزیر جیل خانہ جات، ناصر حسین شاہ نے جیلوں کے نام کو اصلاح گھر میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مذکورہ اعلان انہوں نے ڈسٹرکٹ جیل میرپور خاص کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جیل حکام کی جانب سے اس جیل کی دوسری مرتبہ افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس کے انتظامات پرخطیر رقم خرچ کی گئی۔
میرپور خاص میں 115سالہ قدیم جیل میں گنجائش ختم ہونے کی وجہ سے 12سال قبل جیل کی نئی عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا تھا جو مختلف مدارج طے کرتا ہوا 2018ء میں پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔گزشتہ ہفتے صوبائی وزیر جیل خانہ جات، سید ناصر حسین شاہ نےضلع میں تعمیر ہونے والی نئی ڈسٹرکٹ جیل کی عمارت کا ایک سادہ سی تقریب میں افتتاح کردیالیکن شاید وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ اسی عمارت کا افتتاح اس سے قبل جولائی 2018 میں اس وقت کے نگراں وزیراعلیٰ سندھ، فضل الرحمن کے مشیر برائے جیل خانہ جات( ریٹائرڈ) بریگیڈئر حارث نواز بھی ایسی ہی ایک تقریب میں کرچکے ہیں۔
ترقی یافتہ معاشرے میں کسی بھی جرم میں جیل میںلائے جانے والے قیدیوں کو خصوصی توجہ کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ان کی نفسیات،عادت واطوارکو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ان کی،اصلاح اورتعلیم وتربیت کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں،تاکہ جب وہ جیل سے رہا ہوکرباہر نکلیں تو انہیں باعزت زندگی گزارنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔وہاںکسی بھی جرم کے مرتکب شخص کو عدالت کی جانب سے اس کی آزادی سلب کرکے، ایک خاص مدت تک جیل میں قید کرنے کے فیصلہ کا بنیادی مقصد اس شخص کو یہ احساس دلانا مقصود ہوتا ہے کہ اس نے ملک کے آئین اورقوانین کی خلاف ورزی کرنے کا جرم کیا ہے ،جس کی اسے سزا دی گئی ہے تاکہ وہ آئندہ قانون شکنی کرنے سے گریز کرے۔ قید و بند کی سزا سے معاشرے کے دیگر لوگوں میں بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے حوالے سے خوف اجاگرہوتا ہے۔ان کے لیے درس و تدریس اور فنی تربیت گاہیں قائم ہیں جب کہ ذہنی اصلاح کے لیے پروگرام بھی مرتب کیے جاتے ہیں، جس کے باعث وہ جیل سے رہا ہونے کے بعد معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے سود مند شہری ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس ترقی پذیرممالک کا المیہ یہ ہے کہ وہاں جیلیں اصلاح خانوں کی بجائے عذاب گھر معلوم ہوتی ہیں، جن میں جرائم پیشہ عناصر کا راج ہوتا ہے۔ ان سے معصوم قیدی بھی بجائےسدھرنے کے مختلف جرائم کی تربیت لے کر باہر نکلتے ہیں۔جیلوں کی صورت حال کے حوالے سے پورے ملک اور بالخصوص سندھ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے کوئی اطمینان بخش صورت حال دکھائی نہیں دیتی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ جیلیں، اصلاح خانوں کے بجائے عقوبت خانہ ٹارچر سیل اور جرائم کی اکیڈمیاںبنی ہوئی ہیں۔ ان میں عام طور پر گنجائش سے زیادہ قیدی رکھے جاتےہیں،جو خودایک بڑا مسئلہ ہے۔ماں باپ بہن بھائی،بیوی بچوں،عزیزواقارب اورمعاشرے سے کٹ کرزندگی گزارناکس قدر مشکل ہوتا ہے ، یہ ایک قیدی ہی بہتر طور پرجان سکتا ہے ۔جیل کے حالات اسے چڑچڑا بنا دیتے ہیں ۔ جیل میں اس کے ساتھ انتہائی ناروااور انسانیت سوزرویہ اختیار کیا جاتا ہے ،قدم قدم پر اس کی تذلیل کی جاتی ہے ،ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ کوئی بھی ملزم یا مجرم جب پہلے دن جیل میں داخل ہوتا ہے تواسے اس اندازسے خوش آمدید کہا جاتا ہے کہ اس ’’ریڈ کارپٹ استقبال ‘‘ سے عبرت حاصل کرکے ، وہ جیل کے عملے کی ہرفرمائش پوری کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اگر وہ اس سے روگردانی کرتا ہے توقیدخانہ اس کے لیے عذاب گھر بن جاتا ہے ۔ملک کے آئین اور قانون میں عام شہریوں کی طرح جیل میں سزا کاٹنے یا اپنے مقدمات کے فیصلے کے منتظر، قیدیوں کے فرائض اور حقوق کا بھی تعین کیا گیاہے، جو جیل مینؤئل کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے جیل خانوں میںاس پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا ۔قیدیوں کو معمولی سے معمولی سہولت اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے بھی ،’’خوش رکھواورعیش کرو ‘‘کی پالیسی پر عمل کرنا پڑتا ہے ۔جیل میں قیدیوں کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے جو اثرورسوخ ولین دین اورسفارش کی بنیاد پر اپنی مرضی سے سزاکے دن کاٹتی ہے ۔مختلف جیلوں سے رہائی پانے والے بعض افراد کاکہنا ہے کہ ہماری جیلیں اصلاح خانے کم اور جرائم کی آماج گاہ زیادہ نظر آتی ہیں ،جہاں کی دنیا اور معاملات یکسرمختلف ہیں۔ یہاںکرپشن ،لوٹ مار ،سفارشی کلچراور انسانی تذلیل کا سلسلہ برسہا برس سے جاری وساری ہے۔ یہ حالات مجرمانہ ذہنیت کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتے ہیں۔
حال ہی میںکراچی کے علاقے بن قاسم میں واقع ملیر جیل سے ڈکیتی کے مقدمے میں سزا کاٹنے کے بعد رہائی پانےوالے قیدی نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ کراچی میں دو جیلیں موجود ہیں اور دونوں ہی میں کرپٹ مافیا کا راج ہے اور اس کے ڈانڈے جیل کے اعلی حکام سےجا کر ملتے ہیں۔ مذکورہ قیدی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ عادی مجرم ہے اور گزشتہ دس برسوں کے دوران ڈکیتی کے الزام میں 6مرتبہ گرفتار ہوچکا ہے جب کہ آخری مرتبہ اسے پولیس مقابلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل میں بھی وہ شاہانہ انداز میں زندگی گزارتا ہے۔ آخری مرتبہ گرفتاری کے وقت پولیس کے ساتھ مقابلے میں اس کا ایک ساتھی پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا تھا،مذکورہ قیدی کی ٹانگ گولی لگنے سے زخمی ہوگئی تھی،جب کہ ایک ڈاکو مبینہ طور سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔مذکورہ سابق قیدی نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ جیل میں حفاظتی ڈیوٹی اور قیدیوں کی نگرانی پر مامور پولیس اہل کار،قیدیوں سے ناجائز مطالبات اور فرمائشیں کرتے ہیں، اگر کوئی قیدی ان کے مطالبات ماننے سے قاصر رہے تو اس سے بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ایسے قیدیوں سے شرم ناک کام کرائے جاتے ہیں جن میں باتھ رومز کی صفائی، غلاظت صاف کرنا اور جیل میں جھاڑو لگانا شامل ہے۔ فرمائشیں پوری نہ کرنے والے قیدیوں کوبلاوجہ ظلم و ستم کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے،انہیں حکام کی ملی بھگت سےبند وارڈ کر دیا جاتا ہے۔ جیل کی حدود میں موبائل فون کا استعمال جرم ہوتا ہے لیکن اہل کار ، قیدی کو اپنے موبائل فون پر رشتہ داروں سے رابطہ کرواتے ہیں۔وہ خود پولیس اہل کاروں کے موبائل فون پر گفتگو کرکےہر ماہ اپنے بڑے بھائی سےبھاری رقومات منگواتا تھااس کے علاوہ پولیس والوں کی دیگر فرمائشیں بھی پوری کرتا رہتاتھا، جس کے عوض جیل میں بھی اسے گھر سے زیادہ آسائشیںحاصل تھیں جب کہ اہل کار اس کے نشے کی ضرورت بھی پوری کرتے تھے۔
سندھ کےچوتھے بڑے شہر اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر میرپورخاص میں برطانوی حکومت کے دور میں 1903میں اُس وقت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے سب جیل تعمیر کی گئی تھی جو آٹھ کمرے نما بیرکس پر مشتمل ہے ۔ 1956میں کسی تعمیر و توسیع کے بغیر، اس کا رتبہ بڑھا کر ڈسٹرکٹ جیل کا درجہ دے دیا گیا۔اس جیل میں 72قیدی رکھنے کی گنجائش موجودتھی لیکن اس میںعام طور سے اوسطاً دوسو سے تین سو قیدی رکھے جاتے تھے ۔2006میں اس وقت کی حکومت نے 26کروڑ 82لاکھ 65ہزار روپے کی لاگت سے شہر سے باہر 43ایکڑ اراضی پر 500قیدیوں کی گنجائش کی نئی جیل تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا ،مقررہ وقت پر منصوبہ مکمل نہ ہونے پر 2012میں تخمینی لاگت نظرثانی کے بعد 49کروڑ 94لاکھ 73ہزارروپے پہنچ گئی۔اس مدت میں بھی منصوبہ پایہ تکمیل کونہیں پہنچ سکا۔ 2015میں ایک مرتبہ پھراس منصوبے پر نظر ثانی کی گئی ۔ اس وقت تخمینی لاگت 82کروڑ روپے سے بھی تجاوز کرگئی۔ بہر حال جوں توں کرکے2018 میں نئی جیل کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کی تعمیر مکمل ہوئی اور جولائی 2018ء میں اس کاافتتاح کیا گیا ۔رواں سال 10فروری کو صوبائی وزیر جیل خانہ جات ناصرحسین شاہ نے دوسری مرتبہ جیل کی عمارت کا افتتاح کیا ۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کے انگریز دور کے نظام میں ترامیم کرکے جیلوں کا نام تبدیل کرکے اصلاح گھررکھاجائے گا جس کا مسودہ تیارکرکے سندھ اسمبلی میں قائم کردہ کمیٹی کو ارسال کیا گیا ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئی اصلاحات کے تحت قیدیوں کو ان کی بیوی سے ملاقات،ٹیلی فون سمیت دیگر سہولتیں میسرہوسکیں گی۔ ڈسٹرکٹ جیل کو جلد اپ گریڈ کرکے سینٹرل جیل کا درجہ دیا جائے گا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال جب پہلی مرتبہ اس عمارت کا افتتاح کیا گیا تھا تو اس وقت کے نگراں دور حکومت کے صوبائی مشیر نے بھی کم وبیش ایسے ہی خیالات کا اظہار کیاتھا اور جیل خانہ جات کے اعلیٰ حکام بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
جیلوں کے نام کی تبدیلی کا فیصلہ ، صوبائی وزیر کا قابل ستائش اقدام ہے ، لیکن اپنے فیصلے کو منظوری کے لیے انہیں اسمبلی سے قانون سازی کی ضرورت پڑے گی ، کیا وہ اس میں کامیابی حاصل کرسکیں گے ۔