• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بالی ووڈ فلموں پر پابندی ،عوام کیلئے سزا ؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات پچھلے کئی سالوں سے کشیدہ چل رہے ہیں اور اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ بھارت نے پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کردی ہےیا پاکستانی سنیماؤں سے بھارتی فلمیں ہٹا دی گئی ہیں وغیرہ۔

لیکن پاک بھارت کےمابین اصل کشیدگی پلوامہ واقعے کے بعد پروان چڑھی ہے اور یہ اختلاف اتنے زیادہ بڑھ گئے کہ بات جنگ تک پہنچ گئی۔ بھارت نے پلوامہ دہشتگردی واقعےکو بنیاد بنا کر پاکستانی فنکاروں کے بھارت میں کام کرنے پر پابندی لگادی، اسی طرح پاکستان نے بھی نا صرف یہاں نشر ہونے والے بھارتی ڈراموں کو بند کیا بلکہ تمام بھارتی چینیلز کو بھی بند کردیا۔

پاکستان اور بھارت سمیت دونوں ممالک میں اب مکمل طور پر فنکاروں، ڈراموں اور فلموں پر پابندی لگادی گئی ہے، حکومت کے اس فیصلے پر جہاں کچھ لوگوں نے اتفاق کیا ہے وہیں بڑی تعداد میں پاکستانی عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اُن کے لیے ایک سزا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک نئی بحث جاری ہے۔ علی شیواری نامی پاکستانی کا کہنا ہے کہ ہم شاہ رخ خان، عامر خان، اور سلمان خان کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، وہ سینما کے اتنے بڑے شائق ہیں کہ انہوںنے بھارتی سنیما کے متعلق سٹڈی کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ہمیں ’بالی ووڈ خانز‘ پاکستان میں ڈھونڈنے میں وقت لگے گا۔ شاید پاکستانیوں پر اس کا سب سے زیادہ اثر مالی اعتبار سے پڑے گا۔

دوسری جانب فلم صحافی رافع محمود کہتے ہیں کہ بھارتی فلم انڈسٹری پاکستانی باکس آفس کی زندگی کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں تقریباً 120 سنیما ہالز ہیں اور کسی بھی اچھی فلم کی وہاں دو ہفتوں تک نمائش ہوتی ہے۔ ان کے تخمینے کے مطابق پاکستانی سنیماکو کم از کم 26 نئی فلمیں ہر سال پیش کرنی ہوں گی تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔

ایک اور صحافی حسن زیدی کا کہنا ہے کہ درحقیقت پاکستانی فلم انڈسٹری میں 70 فیصد کمائی بھارتی فلموں سے ہوتی ہے۔ یہ پابندی قابل عمل نہیں ہے، یہاں کی سنیما انڈسٹری بالی ووڈ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

بھارت کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر یہ کوئی پہلی بار پابندی نہیں لگائی گئی اس سے قبل2016میں بھی اس طرح کی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ پاکستانی اداکار فواد خان پر بھی اسی سال بھارت میں کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان اور بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ فلم میں کام کرنے پر بھی سنہ 2017 میں شور اٹھا تھا جبکہ فلم کی ریلیز پر دائیں بازو کے سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے پابندی کا تنازع شروع ہو گیا تھا اور بھارت میں اس کی ریلیز تاخیر کا شکار بھی ہوئی تھی اور پاکستان میں تو یہ فلم ریلیزہی نہیں ہوئی کیونکہ سینسر بورڈ نے کہا کہ اس میں قابل اعتراض مواد ہے۔

پاکستان اور بھارت کی جانب سے ان اقدامات کا نا صرف دنیا بھر میں مذاق اُڑایا جارہا ہے بلکہ دونوں ملکوں کی فلمی صنعت کو بھی بڑا نقصان کا سامنا درپیش ہے۔

تازہ ترین