• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاول کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کے ریمارکس؟

بلاول کے بارے میں اسد عمر کے ریمارکس؟

بلاول کی نواز شریف سے ملاقات؟

بلاول کا اسلوبِ گفتگو؟ ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے صدائے بازگشت کی سرسراہٹیں؟ فضا میں موجود ان ساری کیفیتوں کا ابلاغ اور ان کے سیاسی سفر کی لطافتوں اور نفاستوں کی داستان کا مستقبل؟ یہ نقشہ، اپنے متعلقہ خطوط اور رنگوں میں اُن کے خاندانی پسِ منظر کی تفصیل کا متقاضی ہے۔

یہ تفصیل ہم جناب مجیب الرحمٰن شامی کی ایک تقریر سے مستعار لیتے ہیں۔ یہ تقریر، اے پی این ایس کے صدر کی حیثیت سے اُنہوں نے 9مارچ 2010کو ایوانِ صدر میں منعقدہ اُس اجلاس میں کی تھی جس سے اُس وقت کے صدرآصف علی زرداری نے بھی خطاب کیا تھا۔

جناب شامی کا کہنا تھا ’’جناب صدر! آپ سے اتفاق کیا جائے یا اختلاف، آپ پر تنقید کی جائے یا آپ کی تحسین، یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ آپ رات کے اندھیرے میں شب خون مار کر ایوان صدر پر قابض نہیں ہوئے، آپ دن کے اجالے اور ڈنکے کی چوٹ پریہاں پہنچے ہیں، اپنے آئینی حلقہ انتخاب کا بھرپور اعتماد حاصل کر کے آئے ہیں، اس ایک بات نے آپ کو وہ حیثیت عطا کر دی ہے جو شب زادوں کے حصے میں کسی طور نہیں آ سکتی، وہ آسمان کے تارے توڑ کر لانے کا دعویٰ کریں تو بھی جب شجرئہ نسب کا ذکر آئے گا تو اُنہیں منہ چھپانا پڑے گا۔ جس طرح سفید اور سیاہ ایک نہیں ہو سکتے اُسی طرح منتخب اور غاصب کو ایک ساتھ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کا قد ایک پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا۔ یہ بات تاریخ میں درج ہو چکی ہے کہ آپ کے خلاف انتخاب میں حصہ لینے والوں نے انتخاب سے پہلے، انتخابی عمل کے دوران اور اُس کے فوراً بعد آپ پر کوئی اعتراض داخل نہیں کیا، آپ کے مخالفین بھی آپ کو مبارکباد دیتے دیکھے گئے۔

جنابِ صدر! ہم اُس تاریخی حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ آپ کی رگوں میں صوفیا اور صلحا کا خون دوڑ رہا ہے، آپ کے جدِ امجد جناب بلاولؒ کی وسیع المشربی سے دنیا واقف ہے، اُنہوں نے روا داری اور محبت کے چراغ روشن کئے۔ اُن کا نام زبان پر آتے ہی سندھ کی ایک اور مایہ ناز شخصیت مخدوم بلاول شہید کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اُن کی شخصیت ایک نرالی شان رکھتی ہے۔ فقیانِ شہر یعنی سولہویں صدی کے آئینی اور قانونی ماہرین نے جذبہ جہاد کو عام کرنے کی پاداش میں اُنہیں کولہو میں پسوا دیا تھا، آج ان کا نام نامی آتے ہی گردنیں عقیدت سے جھک جاتی ہیں جبکہ فقیانِ شہر بے نام و نشان ہو چکے ہیں۔‘‘

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، جن کا نام بھی حضرت مخدوم بلاول شہید کے اسم گرامی پر رکھا گیا، اُن کے نانا ذوالفقار علی بھٹو، اُن کی والدہ محترمہ بی بی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور والد گرامی سابق صدر پاکستان اور شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری کے اصولی تعارف بھی ریکارڈ پر لاتے ہیں، یہ تسلسل ہمیں عمران خان صاحب کی چیئرمین پی پی کے سلسلے میں بیانئے کی فکری سرشت میں پیدائشی اور جبلی نقص کی نشاندہی آسان ہو سکے گی۔

تو سب سے پہلے بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو، آج پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ’’اسے‘‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیغام دیتا ہے۔ ’’جنگ سے باز آئو، ہم تو پتہ نہیں رہیں یا نہ رہیں، تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ پاکستان کا یہ پیغام اُس کے ایٹمی طاقت ہونے کے بطن کی پیداوار ہے، عالمِ اسلام کی اِس واحد ایٹمی طاقت کی بنیاد بلاول کے نانا نے رکھی تھی، تا قیامت یہ ایک تاریخ ہی کافی ہے، ویسے تو ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں کی تاریخ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ 1973کا آئین اور 1974کی اسلامی کانفرنس کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ تو بلاول اِس ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ ہے جس کی سیاسی وراثت علم، شعور اور شجاعت سے عبارت ہے۔

آصف علی زرداری پر تھوڑی سی تفصیلی گفتگو۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری پر لگنے والے ماضی و حال کے الزامات میں چھپا خوف بظاہر چھپائے نہیں چھپتا۔آصف علی زرداری موقع پرست قوتوں کے لئے کسی بھی دوسری سیاسی شخصیت سے زیادہ خطرناک تھے۔ 1993سے سنگین الزامات کے ساتھ انہیں جسمانی اذیت اور قاتلانہ حملوں کے ذریعے دھمکانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا، 2006تک کوئی بھی حربہ انہیں زیر کرنے کے لئے ناکافی رہا، دل، کمر، معدے اور اعصابی تکلیفوں کے باوجود آہنی عزم آصف علی زرداری 27دسمبر 2007کےبعد تو ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر گویا پاکستان مخالفین کے لئے قطعی ناقابل برداشت ہو گیا۔

آصف علی زرداری کے پاس آمریت کا سایہ بھی آنے کی جرأت نہیں کر سکا، بایں ہمہ اسے ’’آمر‘‘ کہا جاتا رہا۔ اپنے عہدِ صدارت میں ملک اور پارٹی کے انتظامی امور میں تمام جمہوری روایات اور گفتگو کی گنجائش کے بعد بھی من مانیوں کا مرتکب ٹھہرایا جاتا رہا، ماضی میں شریف خاندان کے اثاثوں کے مقابل آصف علی زرداری ہی کے اندرونی و بیرونی اثاثوں کی کوئی حیثیت نہ ہونے کے باوجود میڈیا اور عدلیہ میں صرف ان کے اثاثوں کا تذکرہ جاری رہا۔ کوئی اس پہلو پر غور کرنے کو آمادہ نہیں تھا کہ 1990تا 2006تک کےتقریباً 7حکومتوں کا قیدی رہنے والا آصف علی زرداری آخر مجرم کیسے قرار پایا۔ تو بلاول اس آصف علی زرداری کا فرزند ارجمند ہے۔

جب پس منظر تاریخ کی عظمت کا علمبردار ہو اس وقت وزیراعظم پاکستان عمران خان کا خطاب کے دوران میں ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ کے نام کو تختہ مشق بنانا بلاول ہی کے نہیں ان کے مقام و مرتبہ سے کہیں فروتر ہے۔ کیا فواد چوہدری کا ’’بھٹو کا نواسہ اور ضیاء الحق کا بیٹا‘‘، کہہ کر خونی لکیر کو مستقل قائم رکھنا چاہتے ہیں، یہ قوم دشمنی نہیں تب بھی قوم دوستی نہیں۔ رہ گئے اسد عمر، انہوں نے بلاول پر جس انداز سے گفتگو کی وہ بھدا، بدصورت مکالمہ تھا۔

بلاول نے نوازشریف کے پاس جا کر ان کی عیادت کر کے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کیا اور سو فیصد درست کہا ’’پہلے انسان بنو پھر سیاستدان!‘‘

تازہ ترین