• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز کے معروضی حالات سے منکشف ہو رہا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے ابھی مزید حکومتی کاوشیں درکار ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑنے کا مسئلہ اپنی جگہ مسائل پیدا کر رہا ہے، ان حالات میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعدادوشمار یہ عیاں کر رہے ہیں کہ رواں مالی سال کے لئے 7ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ سے 40کروڑ 89لاکھ ڈالر نکال لئے ہیں جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالی سال جولائی تا جنوری مجموعی بیرونی سرمایہ کاری 74.8فیصد کم رہی۔موجودہ معاشی بحران میں یہ عمل بلاشبہ تشویشناک ہی قرار دیا جائے گا۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی معاشی بحالی کیلئے ضروری ہے کہ بیرون ملک سے سرمایہ پاکستان آئے ناکہ یہاں سے باہر جائے۔یاد رہے کہ کوئی بھی سرمایہ کار اس وقت تک سرمایہ کاری کرنے کا خیال تک ذہن میں نہیں لاتا جب تک اسے اپنے سرمائے کے تحفظ اور اس پر ملنے والے منافع کا پختہ یقین نہ ہو۔ سرمایہ کاری تو نام ہی اپنے سرمائے کو بڑھانے کیلئے انویسٹمنٹ کا ہے۔ماضی میں یہ عذر بجا تھا کہ پاکستان بدامنی کا شکار ہے اور یہاں سیاسی استحکا م بھی نہیں چنانچہ سرمایہ کار یہاں سے گریزاں رہا لیکن اب تو حالات بالکل مختلف ہیں، اگر اب بھی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی بلکہ اس میں کمی واقع ہو رہی ہے تو ہمیں اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہمارے سفارتخانے کسی بھی محاذ پر کبھی کوئی ایسے کارنامے سرانجام نہ دے سکے کہ پاکستان دنیا میں اپنی اہمیت اجاگر کر سکتا، حکومت کو اس پر توجہ دینا ہو گی۔علاوہ ازیں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی زد میں آنے سے محفوظ رہنے کیلئے انتہا پسندی کیخلاف بھی موثر اقدامات کرنا ہوں گے، سب سے اہم یہ کہ حکومت کفایت شعاری کو یقینی بنائے اور اپنے دوست ملکوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے، سرمایہ کاروں کو حکومتی ضمانت میسر آئے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ سرمایہ کاری نہ کریں۔

تازہ ترین