• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے ملکی معیشت دبائو کا شکار ہے۔ پاک بھارت کشیدگی، آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے حتمی مذاکرات اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر بزنس مینوں کو تشویش ہے۔ اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) نے گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس کراچی میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں فیڈریشن کے صدر انجینئر دارو خان، نائب صدور میں نے بحیثیت سینئر نائب صدر شرکت کی۔ اسکے علاوہ پریس کانفرنس میں بزنس کمیونٹی کے لیڈر ایس ایم منیر، زبیر طفیل، خالد تواب، اشتیاق بیگ اور عبدالسمیع خان بھی شریک تھے۔ فیڈریشن جو پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم ہے، نے عمران خان اور افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ انجینئر دارو خان نے ایک دن پہلے بزنس کمیونٹی کی وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم سے ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ رئیل اسٹیٹ کاروبار جمود کا شکار ہے۔ ایف بی آر کے نئے ویلیو ایڈیشن ٹیبل اور معیشت کو دستاویزی بنانے کی وجہ سے اس شعبے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اب اپنے غیر ظاہر شدہ پیسے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں استعمال نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے یہ شعبہ اور اس سے منسلک 40دیگر شعبے بھی مندی کا شکار ہیں۔ چیمبرز کے صدور نے وزیراعظم سے میٹنگ میں ایک نئی ایمنسٹی اسکیم دینے کی درخواست کی تاکہ اس شعبے سے متعلق سرمایہ کار اپنے پیسے اور اثاثے ظاہر کرکے انہیں قانونی بنا سکیں اور یہ سیکٹر ملکی معیشت میں اپنا فعال کردار ادا کر سکے۔ وزیراعظم پاکستان نے فیڈریشن آف پاکستان سے نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے تجاویز مانگی ہیں جو ہم اپنے ممبرز، چیمبرز اور ایسوسی ایشنز سے مشاورت کے بعد حکومت کو پیش کرینگے۔ میں نے پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے 12ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی متوقع شرائط پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اخبارات کے مطابق حکومت آئندہ 4مہینوں (مارچ سے جون 2019ء تک) میں بجلی کے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (T&D) نقصانات ختم کرنے کیلئے بجلی کے نرخ میں 25فیصد اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے بجلی کے نرخ 12.98روپے سے بڑھ کر 16.24فی یونٹ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں بجلی چوری کی روک تھام کرنے کے بجائے اس کے نقصانات صارفین سے وصول کرنا غیر قانونی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی بجلی اور گیس کے نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں ، اس میں مزید اضافہ صارفین برداشت نہیں کر سکتے۔

آئی ایم ایف نے بجٹ خسارہ 5.1فیصد لانے، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں اضافے سے 100سے 150ارب روپے کے اضافی ریونیو کے حصول، ترقیاتی منصوبوں (PSDP) میں کمی، نقصان میں چلنے والے قومی اداروں پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، پیپکو کی نجکاری، مرکزی بینک سے حکومتی قرضوں میں کمی، اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ جو بڑھ کر 10.25فیصد ہو گئے ہیں، کو ڈبل ڈیجٹ تک بڑھانے، ملکی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے روپے کی قدر میں مزید کمی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کیلئے ملکی امپورٹس میں مزید کمی کے اہداف دیئے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر 4فیصد سے بڑھ کر 7فیصد ہو گیا ہے جو ملک میں مہنگائی کا سبب بنے گا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کیلئے حکومت نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کیلئے 500ملین ڈالر کے ’’پاکستان بنائو بانڈ‘‘ کا اجرا کیا ہے لیکن اب تک اس کا کوئی خاص رسپانس نہیں ملا۔ حکومت نے ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے صنعتکاری کے ذریعے ایکسپورٹ گروتھ حاصل کرنے کی اپنی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے لیکن 13سے 14فیصد بینکوں کی شرح سود اور 140روپے کا ڈالر صنعتوں میں نئی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں مارچ 2018ء سے مارچ 2019ء تک روپے کی قدر میں 25فیصد سے زائد کمی کرنے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ ایکسپورٹرز کے 300ارب روپے کے ریفنڈز اب تک ادا نہیں کئے گئے، حکومت نے حالیہ معاشی اصلاحات پیکیج (منی بجٹ) میں 80ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کیلئے 3سالہ ڈسکائونٹنگ Promissory Noteکا اعلان کیا ہے جس کو بینکوں سے 13سے 14فیصد مارک اَپ پر ڈسکائونٹ کروا کر فوری پیسے لئے جا سکتے ہیں لیکن ان 3سالہ PNکو اونچے مارک اپ پر ڈسکائونٹ کرانے کی صورت میں ایکسپورٹرز کے ریفنڈ کی ایک بڑی رقم بینکوں کو مارک اپ کی شکل میں چلی جائے گی جبکہ ایکسپورٹرز کے بقایا ریفنڈ کیلئے حکومت خاموش ہے۔ پاک بھارت کشیدگی سے معاشی سرگرمیوں اور اسٹاک ایکسچینج پر منفی اثر پڑا ہے اور اسٹاک ایکسچینج دبائو کا شکار ہے جس کی وجہ سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

گزشتہ دنوں کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز (KATI) نے ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے بزنس مینوں ہلٹن، سردار یاسین ملک، عارف آکائی، سلیم سلطان، ابراہیم اور پردھان جن کا تعلق کراچی سے ہے، کے اعزاز میں ایک ظہرانہ دیا جس میں ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے میرے علاوہ ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس لیڈرز دارو خان اچکزئی، ایس ایم منیر، خالد تواب، زبیر طفیل اور کورنگی ایسوسی ایشن کے صدر دانش خان نے بھی شرکت کی۔ بزنس کمیونٹی نے بتایا کہ بزنس مینوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے جو نئی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ بزنس کمیونٹی نے انکم ٹیکس کمشنر کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ءکے سیکشن 177-178کے تحت بزنس کمیونٹی کے دفاتر پر چھاپے مارنے اور کمپیوٹر ڈیٹا ضبط کرنے کے اضافی اختیارات پر شدید تنقید کی اور حکومت سے درخواست کی کہ ایف بی آر کے ان اختیارات کو فوری ختم کیا جائے جس سے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور جو پی ٹی آئی حکومت کی بزنس مین دوستانہ پالیسیوں کے خلاف ہے۔ وزیراعظم اور ان کی معاشی ٹیم سے ملاقاتوں میں ان کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اب صحیح راستے پر گامزن ہے اور بجٹ تک اس کے ثمرات سامنے آ جائیں گے۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت اور ان کی معاشی ٹیم معاشی بحالی کیلئے انتھک کوششیں کر رہی ہے لیکن ہمیں اس کیلئے کوئی مربوط روڈ میپ نظر نہیں آتا۔ دوست ممالک کی مدد (سافٹ ڈیپازٹس) سے وقتی طور پر ہمارے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہو گئے ہیں لیکن ہمیں ایکسپورٹس، بیرونی سرمایہ کاری (FDI)، بیرونِ ممالک سے ترسیلات زر کو فروغ دے کر مطلوبہ زرمبادلہ کمانا ہوگا جبکہ گردشی قرضوں کا خاتمہ اور نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری بھی ملکی معاشی بحالی کیلئے اشد ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے حکومت کو پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہوگا اور بزنس مینوں میں خوف و ہراس کا ماحول ختم کرنا ہوگا تاکہ وہ معاشی دھارے میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کر سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین