• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ محض ایک اخبار نہیں بلکہ ایک عہد بھی ہے اور تاریخ بھی۔ایک ایسی تاریخ جو تحریکِ پاکستان کے ساتھ شروع ہوئی اورتعمیرِ پاکستان سے گزر کر استحکامِ پاکستان میں ڈھل گئی۔روزنامہ جنگ نے اپنے قیام ہی سے قومی زندگی کے مختلف شعبوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا تھا اور ان شعبوں میں سے ایک ’’پاکستانی ادبیات‘‘ بھی تھا۔ ’’روزنامہ جنگ کی ادبی خدمات‘‘ ڈاکٹر قمر عبّاس کا تحقیقی مقالہ ہے ،جس میں اخبار کی کم و بیش 60 برس کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں انجمن ترقّی اُردو ،کراچی میں اس مقالے کے سلسلے میں تقریب ہوئی ، جس سے ممتاز ادیبوں اور صحافیوں نے خطاب کیا۔
ذیل میں ادب و صحافت اور تاریخ سے وابستہ دو اساتذہ کے تقریب میں پڑھے گئے مضامین اس مقصد سے شایع کیے جا رہے ہیں کہ اخبار سے بعض معاملات میں مخالفت رکھنے والے افراد کے خیالات بھی سامنے آ سکیں۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی

اَدب کی رفتار کون طے کرتا ہے، رسالے یا کتابیں؟ جب اَدب معاشرے کی ترجیحات میں ہو ،جب اَدب کی گرم بازاری ہوتو رسالے رہبری کرتے ہیں۔ روزبہ روز، ماہ بہ ماہ اور زیادہ سے زیادہ ہر سہ ماہی پر ہمیں آگہی حاصل ہوتی ہے کہ شاعری یا افسانے میں کیا پیش رفت ہوئی ۔ کون کون سے رحجانات سامنے آئے اور اُن کےرَدّو قبول کی کیا کیفیت رہی ۔ کئی نئے اور پرانےلکھنے والے،ہمیں متّوجہ کرتے رہتے ہیںاور ہماری دِل چسپی کو دانش کے محور تک مرکوز رکھتے ہیں۔ بعض شعبوں میں اخبار، رسائل سے بھی آگے ہیں،یہ کتابوں کی اشاعت ، ادَبی تقریبات و سانحات سے ہمیں آگاہ رکھتے ہیں۔بہر حال، آج ہم یہاں ڈاکٹر قمر عباس کی کتاب ’’روزنامہ جنگ کی اَدَبی خدمات‘‘کی تقریب ِ رُو نمائی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔اشاریوں سےالگ یہ کتاب امتیاز رکھتی ہے کہ یہ محض تبصروں تک محدود نہیں۔

ہم ڈھاکا میں تھے، تو وہاں ’’پاسبان‘‘ نامی اُردو اخبار نکلتا تھا ،لیکن وہاں بھی وحید قیصر ندوی مرحوم نے’’ جنگ ‘‘کی گردش کو تیز تر رکھا تھا ۔ جب ہم بچپن سے لڑکپن میں قدم رکھ رہے تھے، تواُن دنوں اَدَب ِعالیہ کے ستون جیسے،جوش ملیح آبادی ، نیاز فتح پوری اور حفیظ جالندھری ’’روز نامہ جنگ ‘‘کے ذریعے بہت ہی سنجیدہ وپیچیدہ مسائل پرلکھنے میں مصروف تھے۔ مزاح کے شعبے میں شوکت تھانوی اور ابن ِانشا نے موتی بکھیرے۔ رئیس امرہوی اور مجید لاہوری کے قطعات ومنظومات کی اہمیت کا اندازہ ہمیں تب ہوا ،جب سیّدہاشم رضا مرحوم نے تقریروں میں رئیس امروہوی کے قطعات سنائے۔ اس کتاب میں تفصیلاً روزنامہ جنگ میں اشاعت پزیر شہ پاروں کا ذکر کیاگیا ہے۔ ہمارے ایک عزیز دوست تھے، بہت اعلیٰ پائے کے نقّاد ۔تعزیتی تنقید میں تو اب تک ان کا ثانی سامنے نہیں آیا۔ اِدھرکسی مشہور اہل قلم نے انتقال کیا، اُدھر اس کانامۂ اعمال وہ داخل ِدفتر کرتے ۔ظاہر ہے کہ یہ بھی اخبار کے فرائض میں شامل ہے، سلسلہ چلتا رہا ۔ ایک بارہمارے ہم دَم نے ایک ادیب کی جواں مرگی کو ’’ حُسنِ اتفاق‘‘ پر محمول کردیا ۔ جناب شفیع عقیل کی نظر اتفاقاتِ زمانہ پر پڑی ، توانہوں نے میرے ہم پیشہ وہم مشرّب وہم راز کا مضمون واپس کردیا ۔ہمارے دوست میں خود اعتمادی کی کوئی کمی نہیں تھی ۔وہ مدیران کے سامنے فریاد کُناں ہوئے۔ ایک مدیر ِبالانے مرحوم کی ادَبی اہمیت کے پیش نظر اپنے چپراسی کو سفارش کے ساتھ شفیع عقیل کے پاس روانہ کیا ،جب یہ دونوں جناب شفیع عقیل کے دروازے تک گئے ،تو چپراسی نے یہ کہہ کرآگے جانے سے انکار کردیا ،کہ ’’ا ب جو کچھ شفیع عقیل صاحب آپ سے کہیں گے،مجھ میں وہ سننے کی تاب نہیں۔‘‘

؎ اب میں کہاں اور کہاں دشنامِ مے فروش ۔ہمارا تجربہ آپ حاضرین و حاضرات سے ذرا مختلف ہے ۔ ہم اخبار جنگ کے دفتر میں پہلے پہل مؤرخ و نقادونکتہ داں کی حیثیت سے داخل نہیں ہوئے تھے، ایک بیمہ فروش کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ جن لوگوں پرہماری طلاقت ِزباں نے اثر کیا، اُن میں سرِفہرست جناب محمود شام تھے ۔ فضل صاحب تھے، جامی صاحب تھے ۔ جناب انعام درانی نے وہ حادثاتی بیمہ پالیسی تو نہ خریدی، البتہ اُس کے خلاف پورا کالم لکھ دیا ۔(پھرامریکن لائف انشورنس میںہمارے افسر ِبالا نے انعام درانی ہی کو وہ پالیسی فروخت کی۔)بہر حال، اس حادثے کا ہم پر اثر مشاعرے میں ہُوٹ ہوجانے سے زیادہ ہوا ۔ ہم نے ملک التّجار بننے کی راہ کو مسدود پایا تو ادب و تاریخ کی شاہ راہ پر آگئے ۔اورادارۂ جنگ ہی نےسب سے زیادہ اس راہ میں ہماری اعانت کی ۔ جنگ میں شہزاد منظر مرحوم اوراخبارِجہاں میں علی حیدر ملک مرحوم نے ہماری ایک ایک جنبش ِقلم کو لاکھوں شائقین تک پہنچا دیا ۔پھر گزشتہ دوبرسوں میں جنگ نے دانش وَروں کی ملامت سے بے پروا ہوکر ہمیں وسائلِ ابلاغ عطا کیے۔ کفران ِنعمت اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے اس جملے میں اس امر کا اعتراف ضروری تھا۔ اگر آپ نوازشوں کا شکریہ ادا نہ کریں گے تو دیگر اداروں کے تغافل کا گلہ کیوں کر کرسکیں گے ؟

اب آجائیے آج کے مصنّف پر،اِن کی پہلی کتاب’’ ادب کے چاند تارے‘‘کا دیباچہ لکھ چکا ہوں۔ تاہم، تارے گننے کا سلسلہ ابھی جاری ہے، اس لیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے مضامین، ادب اور صحافت کے عین درمیان ہیں۔ صرف ادبی ہوں تو اظہار کو ابلاغ نہ ملے ،صرف صحافتی ہوں تو ابلاغ کو اظہار نہ ملے، اتنا توہم سب جانتے ہیں۔ لیکن عملاً اس میدان کو پالینا بہت دشوار ہوتا ہے ۔اور’’روزنامہ جنگ کی ادبی خدمات‘‘ میںتو قاموسی شان کے ساتھ کُوزے میں دریا کوبند کیاگیا ہے۔ اشارت کیا ، عبارت کیا ،ادا کیا ۔ قصّہ مختصر، اخبار جنگ کے وسیلے سے پاکستان کی ہر زبان، ادب کی ہر صنف اورہر صنف کے مشاہیرکی خدمات کو مستقبل کے لیے محفوظ کرلیا گیا ہے ۔

ڈاکٹر طاہر مسعود

علّامہ شبلی نعمانی نے فرمایا کہ ’’تحقیق چیونٹیوں کے منہ سے ریزہ ریزہ شکر جمع کرکے مٹھائی تیار کرنے کا نام ہے۔‘‘ اگر اس تعریف کی رُو سے ڈاکٹر قمر عباس کی روزنامہ جنگ پر کی جانے والی تحقیق کو دیکھا ، پرکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے چیونٹیوں کے منہ سے ریزہ ریزہ شکرجمع کرکے جو مٹھائی تیار کی ہے ، وہ مقدار اور معیار دونوں اعتبار سے لذیذ و مفید ہے۔ تاریخی تحقیق گڑے مُردے اکھاڑتی ہےاور ڈاکٹر قمر عباس نے جن گڑے مُردوں کو اکھاڑا ہے، وہ ان کی محنت اور دیدہ ریزی کی نشان دَہی کرتی ہے۔ اصل میں جب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو تحقیق کے دھندے کی طرف لگایا ہے اور سرکار نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کو پی ایچ ڈی الائونس دینے کا فیصلہ کیا ہے، اساتذہ اور نوآموز محققّین میں کھلبلی سی مچ گئی ہے، اب لکھنے پڑھنے سے معمولی سی دل چسپی رکھنے والا بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے پر تلا ہوا ہے۔ چوں کہ ایچ ای سی نے تحقیق کرنے والوں کی رجسٹریشن کے طریقۂ کار میں تبدیلی کردی ہے اور اب کورس ورک کرنا ضروری ٹھہرا ، تو جامعات میں اس کورس میں داخلہ لینے کے خواہش مندوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ الگ بات کہ ایک سال کے کورس ورک کے بعد بھی ایم فِل اور پی ایچ ڈی کےطلبہ کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا موضوع ایسا ہے جس پر تحقیق کی جاسکتی ہے اور کون سا تحقیق کے قابل نہیں ہے۔ڈاکٹر قمر عباس کا معاملہ یہ ہے کہ لکھنے پڑھنے کے ذوق و شوق کے سبب انہیں کورس ورک کی محتاجی ہی نہیں رہی۔ وہ پی ایچ ڈی کرنے سے پہلے بھی علمی مزاج رکھتے تھے اور پی ایچ ڈی کے دوران انہیں جو مواد کھنگالنے کا موقع ملا تو انہوں نے ادَبی خدمات کے حوالے سے روزنامہ جنگ کا پورا ماضی ہمارے سامنے مقالے کی صورت زندہ کرکے لاکھڑا کیا۔

ان معنوں میں یہ ایک قابلِ قدر دستاویز ہے کہ ’’جنگ‘‘ نے اپنے مالک و مدیر میر ،خلیل الرحمٰن کی شبانہ روز محنتِ شاقہ سے کئی دَہائیوں میں جس طرح اُردو زبان کے سب سے بڑے اخبار کی صُورت پائی، اس کا ایک تفصیلی جائزہ اس مقالے میں اس طرح لیا گیاہے کہ اُردو میں کم ہی مقالے اتنی محنت اور دقّت ِنظری سے لکھے اور مرتّب کیے گئے ہوں گے۔

مقالہ کیا ہے ،روزنامہ جنگ کے ماضی کا طلسم ہوش رُبا ہے۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں کیسی کیسی بلندپایہ ادَبی و علمی شخصیات اس اخبار سے وابستہ رہیں اور اُسلوب و موضوعات کے اعتبار سے کتنے بلند پایہ مضامین اس اخبار کی زینت بنتے رہے۔ جب علّامہ نیاز فتح پوری اور جوش ملیح آبادی سے لے کر شوکت تھانوی، ابراہیم جلیس اور ابنِ انشا جیسے ادبا و شعراء روزنامے کے قلمی معاونین ہوں تو اخبار کا معیار کیسا اور کتنا بلند ہوگا، اس کا قیاس کیا جاسکتا ہے۔پھرفقط اتنا ہی نہیں، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ نے نئے لکھنے والوں کی کس قدر حوصلہ افزائی کی کہ بعد میں ان ہی نوآموز قلم کاروں نے اردو ادب و شعر میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ تحقیق کے نتیجے میں اگر کسی اخبار کی ماضی کی خدمات سامنے آجائیں اور وہ سب کچھ، جو اخباری فائلوں میں دَبااور چھپاہوا ہو، اُسے نہایت سلیقے، احتیاط سے، ضروری و غیر ضروری، متعلقہ اور غیرمتعلقہ مواد کے فرق کے ساتھ اس طرح مرتّب کرکے پیش کیا جائے کہ سارا مواد لائقِ مطالعہ بھی ہو اور اس کے ذریعے علمی اور تحقیقی سرمائے میں اضافہ بھی ہوجائے تو ہمیں داد دینی چاہیے، محقّق اور اس کے نگراں کو، جنہوں نے زیرآب حقائق کو سطح ِآب پہ لاکر اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کیا۔

روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے بارے میں عمومی تاثر یہی رہا ہے کہ یہ ابتداء سے ایک کاروباری، مصلحت پسند اخبار ہے، جس نے ہر حکومت کی کاسہ لیسی کی۔ ممکن ہے، اس تاثر میں کسی حد تک صداقت بھی ہو، لیکن ڈاکٹر قمر عباس کی تحقیق نے یہ حقیقت روشن کی ہے کہ اگر اس کے ماضی کو مثال بنایا جائے تو بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس اخبار پہ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ، جب ملک کے بہترین اہل ِقلم اس سے وابستہ رہے ۔ انہوں نے اپنی نگارشات سے اُردو زبان و ادب کے دائرے کو وسیع کیا اور پڑھنے والوں کے ذوق کو مہمیز کرنے، ان کے علمی و ادبی ذوق کو پروان چڑھانے اور عمدہ و معیاری مواد پیش کرنے میں یہ اخبار پیچھے نہیں رہا۔ اس تحقیق سے نہ صرف اخبار کے قد و قامت میں اضافہ ہوا بلکہ بعض حوالوں سے اس پرجو الزامات لگتے رہے ، ان کا ازالہ بھی ہوگیا ہےاور یہی تحقیق کا مقصد ہے کہ صداقت و سچائی کو سامنے لایا جائے اور بے بنیاد تاثرات و تعصبات کو دُور کرکے اصل حقیقت کو بے نقاب کیا جائے۔ گرچہ آج کی تحقیق ان معنوں میں سوالیہ نشان ہے کہ اس کا معاشرے اور اس کے اِداروں سے ربط ضبط برائے نام رہ گیا ہے۔ تحقیقی مقالات محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ وہ لکھے جاتے اور لائبریریوں کے طاقچوں پر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ نہ معاشرے کو پہنچتا ہے اور نہ اہلِ علم کو،لیکن مذکورہ مقالے میں جس محقّقانہ جذبے کے ساتھ موضوع سے انصاف کیا گیاہے، اس پر بِلا شبہ مقالہ نگار داد اور شکریے کے مستحق ہیں۔

تازہ ترین