ہم کچھ دوست کراچی میں کھانے کے معروف مرکز، برنس روڈ کے ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اور باہمی مشاورت سے چکن کڑاہی کا آرڈر دے دیا۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک دوست اچانک اٹھا اور تیزی سے داخلی دروازے کے باہر، دائیں طرف کھانے بنانے میں مصروف شخص کے پاس جا کھڑا ہوا۔ اُسے اونچی آواز میں بولتے دیکھ کر ہم بھی باہر آگئے۔ ماجرا پوچھا، تو دوست نے چولھوں کے لیے بنے کاؤنٹر کے نیچے اشارہ کیا، جہاں تیل کے کئی کنستر رکھے ہوئے تھے اور ایک ڈِبّے کے اَدھ کُھلے ڈھکن پر کلو بھر کا چوہا بیٹھا ہمیں گھور رہا تھا۔’’ یار! تم چوہوں کے جھوٹے تیل میں کھانا بناتے ہو؟ اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟ کسی کی جان کا کوئی احساس نہیں‘‘، دوست پے درپے سوال کیے جا رہا تھا اور وہ شخص اِک شانِ بے نیازی سے اپنے کام میں مگن تھا۔ جب سوالات اور احتجاج کے سلسلے نے طول پکڑا، تو باورچی جھنجھلا کر بولا’’ یار! کیوں ڈرتے ہو، زیادہ بابو بننے کا کوئی فائدہ نہیں، سب یہی کھاتے ہیں، کچھ نہیں ہوتا۔ ‘‘وہاں سَر کھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، سو کیش کاؤنٹر پر بیٹھے صاحب سے شکوہ کیا، تو اُنھوں نے آواز لگائی’’ فیقو! ڈبوّں کو ڈھانپ دے۔ اِن لڑکوں کے معدے کم زور ہیں۔‘‘ ہم اپنا سَر پیٹتے باہر آگئے، مگر شیشے کے پیچھے بہت سے لوگ مزے سے وہ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ کیا واقعی اس طرح کے کھانوں سے کچھ نہیں ہوتا اور اس معاملے میں احتیاط، نِری بزدلی ہے؟
کوئی پرانی بات تو نہیں، ابھی چند ہفتے قبل کراچی میں پانچ معصوم بچّے، اپنی پھوپھی سمیت جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور گزشتہ برس نومبر میں اسی شہر کے پوش علاقے کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے سے دو بچّوں کی موت واقع ہوئی۔ نیز، آپ کو لیّہ کے نواحی گاؤں کا وہ واقعہ تو یاد ہوگا کہ بچّے کی ولادت کی خوشی میں تقسیم کیے گئے لڈو کھانے سے تین درجن افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ درحقیقت زہریلے یا مضرِ صحت کھانے سے اموات اور بیمار ہونے کے واقعات اس قدر عام ہیں کہ اُن کی مختصر تفصیل بیان کرنے کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں۔ بہرحال، ان بڑھتے ہوئے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ ایک انتہائی حسّاس معاملے کی صورت اختیار کرچُکا ہے، اس لیے ان واقعات کو محض روٹین کے معاملات کہہ کر یا حد سے زیادہ احتیاط پسندی کے طعنے دے کر نظرانداز کرنا مناسب نہ ہوگا۔ تاہم، بنیادی سوال یہ ہے کہ زہریلے یا مضرِ صحت کھانے سے کیا مُراد ہے؟سو، یہی سوال ہم نے جناح یونی ورسٹی فار ویمن، کراچی کے مائیکرو بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن، ڈاکٹر تقدیس ملک صاحبہ کے سامنے رکھا، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ ایسی غذائیں، جن کی تیاری کے دَوران معیاری اشیاء استعمال نہ کی گئی ہوں یا حفظانِ صحت کے دیگر اصول نظرانداز کیے گئے ہوں، وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔
نیز، بعض اشیائے خورو نوش درست پیکنگ نہ ہونے یا کُھلی رہنے کے سبب ماحول میں موجود جراثیم کی زَد میں آجاتی ہیں اور یوں وہ اشیاء، انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر کھانے کی organoleptic properties یعنی شکل خراب ہو کر سخت، بد ذائقہ یا بدبودار ہوجاتی ہے۔اگر زہریلے کھانے کی بات کریں، تو کھانے میں کسی بھی نوعیت کا toxin( حیوانی یا نباتاتی زہر) شامل ہو جائے، تو وہ کھانے کو زہر میں بدل دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کھانے میں کوئی زہریلا کیڑا جیسے چھپکلی یا مکڑی وغیرہ شامل ہوجائے یا پھر کوئی زہریلی دوا، جیسے کھٹمل مار دوا وغیرہ کھانے کا حصّہ بن جائے، تو یہ کھانا زہر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ ٹاکسن اکثر و بیش تر ڈبّا بند خوراک میں پایا جاتا ہے۔ دراصل Clostridium Botulinumایک ایسا جرثوما ہے، جو جان لیوا فوڈ پوائزننگ’’ Botulism‘‘(زہر نابی)کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح، کھانا باسی ہوکر خراب ہوجائے یا ایکسپائرڈ ہو، تو بھی وہ انسانی صحت کا دشمن بن جاتا ہے۔بعض اوقات کسی ایسے جانور کا گوشت یا سبزی کھانے سے بھی فوڈ پوائزننگ ہوجاتی ہے، جس میں زہر شامل ہو۔‘‘’’ ڈاکٹر صاحبہ! جب معاملہ اس قدر حسّاس اور انسانی جان سے تعلق رکھتا ہے، تو اس سے بچاؤ کے لیے کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر تقدیس ملک نے کہا’’دیکھیں جی! بات بالکل واضح اور سیدھی ہے۔ ہم حفظانِ صحت کے اصول اپنا کر ہی خود کو اس طرح کے مسائل سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ہمیں کچن یا کھانے پکانے کے دیگر مقامات کو بہت صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ یہ دھیان رہے کہ وہاں ایسی کوئی چیز موجود نہ ہو، جو بے دھیانی میں کھانے کا حصّہ بن جائے، جیسے کیڑے مار ادویہ۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ وہاں چھپکلیاں موجود نہ ہوں۔ پھر تیل، گھی، گوشت اور دیگر مسالا جات وغیرہ صاف ستھری، تسلّی کی جگہ ہی سے خریدیں۔نیز، ہمیں وہ حدیثِ مبارکہؐ بھی یاد رکھنی چاہیے، جس میں برتنوں کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، کھانے پینے کی کوئی بھی ڈبّا بند چیز خریدتے ہوئے ایکسپائری ڈیٹ ضرور دیکھ لینی چاہیے، تاہم اس ضمن میں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ پیکٹ، ڈبّے، بوتل یا تھیلے وغیرہ پر درج مدّتِ میعاد کا تعلق ان اشیاء کے بند رہنے سے ہوتا ہے، لہٰذا پیکٹ کُھلنے کے بعد لکھی گئی تاریخ کے چکر میں نہ پڑیں، کیوں کہ یہ چیزیں مقرّرہ تاریخ سے پہلے بھی خراب ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح، ہوٹلوں وغیرہ میں کئی بار باسی اور پُرانا کھانا تیز مسالے ڈال کر سرو کردیا جاتا ہے تاکہ گاہک کو اس کی بُو کا علم نہ ہو سکے، اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، کیوں کہ فوڈ پوائزننگ کے بیش تر کیسز کا تعلق اسی طرح کے کھانوں سے ہوتا ہے۔‘‘
ہم نے مختلف بازاروں کا چکر لگایا اور چند ہوٹل مالکان سے بات بھی کی، مگر اُن کی منطق ہی نرالی تھی۔آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ایک درمیانے درجے کے ہوٹل مینیجر کا کہنا تھا’’ اگر ہم ایک نمبر آئل استعمال کریں، آٹا اور دیگر اشیاء بھی اچھے معیار کی خریدیں، تو اس سے سالن، روٹیاں وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی، جو عام آدمی نہیں خرید سکے گا۔‘‘ ایک سموسہ فروش کی کڑاہی میں انتہائی سیاہ تیل دیکھا، تو سوال کیا ’’آپ کڑاہی میں ایک بار تیل ڈال کر سارا دن اُسی سے سموسے، پکوڑے تَلتے رہتے ہیں؟‘‘ ’’تو اور کیا؟‘‘ ہمارے سوال پر اُس نے دلیل دی ’’اگر ہم اچھا تیل لیں اور اُسے ایک دو بار استعمال کے بعد بدل دیں، تو دکان کیسے چلائیں گے۔‘‘’’ بھائی آپ اِن جلیبیوں کے تھال اور دیگر مٹھائیوں کو ڈھانپ کر کیوں نہیں رکھتے؟‘‘’’ تمھیں کیا تکلیف ہے؟ نہیں لینی تو کوئی دوسری دُکان دیکھ لو‘‘۔مٹھائی والا تو ہمارے سوال پر بھڑک ہی اٹھا۔ مگر مسئلہ ہماری تکلیف کا نہیں، پوری قوم کی صحت کا ہے۔ یہ دُکان دار جو سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے اور فضول دلیلیں تراشتے ہیں، ریاستی اداروں کے حرکت میں آتے ہی سیدھے ہوجاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ ادارے کسی حادثے کے بعد ہی گہری نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور چند روز بعد دوبارہ خرّاٹے لینے لگتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے معیار پر نظر رکھنے کے لیے صوبوں میں فوڈ اتھارٹیز قائم ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی فوڈ اتھارٹیز خاصی متحرّک رہی ہیں، جس کے مثبت نتائج بھی سامنے ہیں، البتہ سندھ اس معاملے میں خاصا پیچھے ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں کراچی کے پوش علاقے میں مضرِ صحت کھانا کھانے سے دو بچّوں کی موت پر حکومت بیدار ہوئی اور سندھ فوڈ اتھارٹی کو فعال کیا۔ ہم نے سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر، ابرار شیخ سے پوچھا’’ شہر میں کُھلے عام مضرِ صحت اشیاء فروخت کی جا رہی ہیں۔ آپ روک تھام کے لیے کیا کر رہے ہیں؟‘‘اس سوال پر اُن کا کہنا تھا’’ ہمارے ادارے کو قائم ہوئے چند ماہ ہی ہوئے ہیں، اس لیے ہم سے یہ توقّع نہیں رکھی جانی چاہیے کہ ستّر برسوں کا گند ہفتوں میں صاف کردیں گے۔ ہم خود کو بری الذمّہ تو نہیں سمجھتے، مگر پُرانے اداروں سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اُنھوں نےاپنے فرائض کہاں تک پورے کیے۔‘‘ایک اور سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ ہم نے قصرِ ناز کا کچن سیل کر رکھا ہے۔ وفاقی حکومت کے گیسٹ ہاؤس کے کچن کا اتنا بُرا حال تھا کہ بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ہمارا ایک ایسے مائنڈ سیٹ سے مقابلہ ہے، جو اپنے معاملات درست نہیں کرنا چاہتا، بس بھتّے دے کر سرکاری اہل کاروں کے منہ بند رکھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہم کسی لالچ یا دباؤ میں آئے بغیر عوام کی صحت کے دشمنوں کے خلاف مقدمات قائم کر رہے ہیں اور اُنھیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں کراچی کی اہم فوڈ اسٹریٹس میں کارروائیاں کی ہیں، جن کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔عملے کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے اور اتھارٹی کی اپنی لیبارٹری بھی دو ماہ تک کام شروع کر دے گی۔‘‘ابرار شیخ کا مزید کہنا تھا کہ’’ فوڈ کی سپلائی چَین میں بہتری لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا۔ نیز،عوام میں پیکٹس کے لیبلز پڑھنے کی اہمیت بھی اجاگر کرنا ہوگی تاکہ اُنھیں معلوم ہو کہ وہ کھا کیا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں،کھانا پکانے والوں کا طبّی معاینہ بھی بے حد ضروری ہے کہ کہیں کوئی ہیپاٹائٹس یا اسی نوعیت کے کسی اور مرض میں مبتلا شخص تو کھانا نہیں بنا رہا؟ اس کے ساتھ، ہوٹلز میں استعمال ہونے والے برتنوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اِن تمام پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں، تاہم حالات بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن ہماری نیّت ٹھیک ہے اور محنت بھی سب کے سامنے ہے۔‘‘
اسلام نے تو صفائی کو نصف ایمان قرار دیتے ہوئے اپنے بدن، لباس، گھر، دفاتر،دُکانوں، بازاروں، گلی محلّوں غرض ہر چیز میں صفائی ستھرائی اختیار کرنے پر زور دیا ہے،نیز، ہمارے مُلکی قوانین بھی ماحول صاف ستھرا رکھنے کو لازم قرار دیتے ہیں، مگر بدقسمتی سے مجموعی طور پر ہم نے اپنے معمولات سے صفائی کو بے دخل کر رکھا ہے۔ کھانے پینے کی دُکانوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ہمارے ہاں ہوٹل، کھانے پینے کے ٹھیّے، گوشت اور سبزی کی دُکانیں عموماً انتہائی گندے سمجھے جانے والے علاقوں میں ہوتی ہیں، بلکہ بہت سی دُکانیں تو نالوں کے کنارے پر قائم ہیں۔ پھر ان نالوں اور گندگی کے ڈھیروں سے اٹھنے والے تعفّن اور مختلف بیماریوں کے جراثیم کا ٹھکانہ یہی کُھلی اشیاء ہوتی ہیں۔ نیز، سڑک کنارے ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی کُھلی چیزوں میں دھول، مٹّی اور کچرا بھی شامل ہوتا رہتا ہے۔ آپ مُلک کی کسی بھی فوڈ اسٹریٹ چلیں جائیں، کچرے کے ڈھیر، اُبلتے گٹر، کھانے پینے کی کُھلی اشیاء، جن پر مکھیاں بھی بھنبھنا رہی ہوں گی، آپ کا استقبال کریں گی۔ اور جو ریستوران بہ ظاہر صاف ستھرے نظر آتے ہیں، اگر کبھی آپ کو اُن کے کچنز بھی دیکھنے کا موقع مل جائے، تو کانوں کا ہاتھ لگاتے باہر آئیں گے۔ ٹھیک ہے، فوڈ اتھارٹیز کی ذمّے داری کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو چیک کرنا ہے،لیکن دیگر ادارے بھی اُن کا ساتھ دینے کے پابند ہیں۔ اسی طرح عوام کو بھی اپنے حصّے کا فرض ادا کرنا ہوگا۔ درحقیقت، ہم سب کے باہمی اشتراک ہی سے ایک ایسا صحت مند ماحول تخلیق پا سکتا ہے، جس میں عوام کو کم از کم کھانے پینے کی اشیاء تو خالص اور معیاری مل سکیں۔
مائیکرو ویو اوون کا زیادہ استعمال ٹھیک نہیں
ہمارے گھروں، دفاتر اور ہوٹلز تک میں کھانا گرم کرنے کے لیے مائیکرو ویو اوون کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ بہت سے ماہرین مائیکرو ویو اوون کو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔اُن کے مطابق، مائیکرو ویو اوون میں تیار کردہ یا گرم کیے گئے کھانوں کے زیادہ استعمال سے بانجھ پن، ذیابطیس، موٹاپے اور کینسر جیسے امراض کا اندیشہ ہے۔ ڈاکٹر تقدیس ملک نے اس معاملے کو سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا کہ’’ اصل بات یہ ہے کہ آپ کھانا گرم کرنے کے لیے برتن کون سا استعمال کر رہے ہیں۔ مثلاً اگر اس مقصد کے لیے پلاسٹک کے برتن استعمال کیے جا رہے ہیں، تو یہ اور خطرناک ہے، کیوں کہ مائیکرو ویو اوون سے خارج ہونے والی شعائیں اس طرح کے برتنوں سے ٹکرا کر کھانے پر انتہائی منفی اثرات مرتّب کرتی ہیں۔ویسے بھی کھانا ہمیشہ تازہ ہی کھانا چاہیے اور مائیکرو ویو اوون کا بہت زیادہ استعمال تو کسی صورت مناسب نہیں۔‘‘
کیڑےماریں، خود کو نہ ماریں
کیا آپ کو علم ہے، کراچی کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں پانچ بچّوں سمیت چھے افراد کی ہلاکت کیسے ہوئی؟ سرکاری رپورٹ کے مطابق اموات ،المونیم فاسفائیڈ نامی زہریلے کیمیکل سے ہوئی، جس کے ذرّات بریانی میں شامل ہو گئے تھے۔ بچّے فرش پر سوئے، جہاں کیمیکل موجود تھا، جو سانس کے ذریعے اُن کے جسم میں داخل ہوا۔دراصل، ملازمین نے کیڑے مکوڑے اور کھٹمل مارنے کے لیے یہ کیمیکل ڈالا تھا، لیکن اُنھوں نے سخت بے احتیاطی سے کام لیا اور اسی بے احتیاطی نے ایک پورا گھرانہ اجاڑ دیا۔ ماہرین کے مطابق، جہاں یہ کیمیکل استعمال کیا جائے، اُس جگہ کو چوبیس گھنٹے تک استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم اپنے گھروں، خاص طور پر کچن میں لال بیگ، کھٹمل یا چوہے وغیرہ مارنے کے لیے مختلف ادویہ کا اسپرے کرتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماحول کو صحت مند رکھنے کے لیے فیومیگیشن ضروری ہے، تاہم استعمال کیے جانے والے کیمیکلز کے منفی اثرات کے بارے میں بھی اچھی طرح علم ہونا چاہیے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں معمولی سی غفلت کو بھی راہ نہیں دینی چاہیے۔ اسی طرح، فیومیگیشن ہمیشہ کسی مستند کمپنی ہی سے کروائیں یا اگر خود گھر میں کوئی کیڑے مار دوا استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے کسی ماہر سے مکمل معلومات حاصل کر لیں۔