• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’لارنس آف عریبیہ‘‘ پر بنائی گئی ایک فلم میں لارنس کا دوست کے ساتھ مکالمہ دِکھایا گیا ہے۔ وہ سائیس دوست سے کہتا ہے’’گھوڑوں کو جنگ کے لیے تربیت کیوں دیتے ہو، جنگ کوئی اچھی چیز تو نہیں۔‘‘اس پر دوست جواب دیتا ہے’’لارنس! جب پوری دنیا تم جیسی باشعور ہوجائے گی، تب مَیں گھوڑوں کو تربیت نہیں دوں گا۔‘‘ہاں، بدقسمتی سے دنیا ابھی تک جنگوں کی ہولناکیوں اور تنازعات کو ہوا دینے کے مضرّات کے بارے میں شعور کی اُس سطح پر نہیں پہنچ سکی ، جہاں جنگی ہتھیاروں کو خیرباد کہا جا سکے۔ اب تو سائنس کی خالص روشنی بھی جہالت کے اندھیروں میں گم ہوچُکی ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں انسانی حقوق کی باتیں تو خُوب بڑھ چڑھ کر کرتی ہیں، لیکن مہلک ترین ہتھیاروں کی صنعت سے اربوں ڈالرز بھی کماتی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد سے یورپ اور امریکا خود تو امن کی راہ پر چل رہے ہیں، لیکن باقی دنیا میں تنازعات پیدا کرکے قتل و غارت کو ہوا دیتے ہیں، اُن کی فیکٹریاں دھڑا دھڑ اسلحہ فروخت کررہی ہیں۔ امریکی سام راج نے نائن الیون ڈرامے کے بعد مسلم دنیا کے خلاف جو پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے، اس کے لیے پہلے پہل یہ جواز تراشا گیا کہ’’ عراق میں تباہ کُن ہتھیاروں کے انبار ہیں، لہٰذا اس سے پہلے کہ وہ دنیا کو تباہ کرے، ہم عراق کو آمریت سے بچا کر امن کی راہ پر لائیں گے‘‘، یوں مشرقِ وسطیٰ کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا گیا، جو تَھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔اسی طرح مُودی سرکار نے بھی جنوبی ایشیا کے اربوں انسانوں کو خطرات میں دھکیل دیا ہے۔ وہ’’کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کے ذریعے پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن پاکستانی فضائیہ، نیوی اور برّی فوج کے بروقت اقدام سے بھارت کی اقوامِ عالم میں سفارتی اور جنگی، دونوں محاذوں پر سُبکی ہوئی۔

بھارت کی عالمی سطح پر جانی پہچانی ناول نگار اور سوشل ورکر، ارون دھتی رائے لکھتی ہیں’’بھارت میں گزشتہ ایک عشرے میں 5لاکھ کسانوں نے مالی تنگی اور بھوک و افلاس سے بے زار ہوکر خودکُشی کرلی‘‘۔ ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف جنگی جنون میں مبتلا بھارتی قیادت اربوں ڈالرز کا اسلحہ خرید رہی ہے۔نیز، وہاں طبقاتی تقسیم سے آگاہی کے لیے ڈاکٹر مبارک علی کا صرف یہ جملہ کافی ہے کہ ’’ اگر اچھوت، برہمن کے اشلوک سُن لے، تو اُس کے کانوں میں کھولتا تیل ڈالا جاتا ہے۔‘‘ ارون دھتی رائے گزشتہ کئی ماہ سے کہہ رہی ہیں کہ’’کشمیر، تاریخی طور پر کبھی بھی بھارت کا حصّہ نہیں رہا۔‘‘ اب تو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے ہندو ارکان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے ریاست جمّوں و کشمیر کو ایک خصوصی مرتبہ دیا تھا۔ پنڈت نہرو نے استصوابِ رائے کا اعلان کیا تھا، لیکن مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی تحریک دبانے کی خاطر سات لاکھ فوج کے ذریعے قتل و غارت کی بدترین تاریخ رقم کردی۔ ظاہر ہے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اور مسلم اقلیت تو خاص طور پر نشانے پر ہے، مگردنیا یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود لب سیے ہوئے ہے۔ گجرات میں نریندر مودی نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی، جس پر امریکا نے اُن کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگادی تھی، مگر آج وہی بھارت، ایشیا میں امریکا کا سب سے بڑا حاشیہ بردار ہے۔ پھر دورنگی دیکھیے۔ بھارت میں گائے کو مقدّس تصوّر کیا جاتا ہے، مگر ہندو سیٹھ اس کے گوشت کے کاروبار سے لاکھوں ڈالرز کماتے ہیں، دوسری جانب، گاؤ ماتا کی آڑ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے۔ بھارت اپنے داخلی مسائل سے توجّہ ہٹانے اور سیاسی فوائد کے حصول کے لیے اپنے عوام میں پاکستان کے خلاف جنگی جنون پیدا کر رہا ہے، لیکن اب اُس کا منفی پروپیگنڈا اور کشمیر میں پُرتشدّد کارروائیاں میڈیا کے ذریعے دنیا پر آشکار ہوچُکی ہیں۔ یہ جنون خود بھارت کے لیے بھی خطرناک ہے کہ وہاں آسام، تری پورہ اور نکسل باڑی وغیرہ میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن کا ہراول دستہ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی ہے۔ نیز، خالصتان کی خاموش تحریک کسی بھی وقت آتش فشاں بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، آبادی کا بم اور غربت بھی اس کے لیے سنگین خطرے کا الارم ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کے وزیرِ اعظم ،آزاد کشمیر میں سیّاحت کے فروغ کے لیے مختلف منصوبوں کے اعلانات کررہے ہیں، نیلم وادی میں بدھ مت اور ہندومت کے مذہبی مقامات ہیں۔ گزشتہ دنوں کرتار پور راہ داری کھولنے کے اعلان کے بعد لدّاخ میں سِلک رُوٹ کھولنے کے لیے بھی بڑی ریلی نکالی گئی۔ 1949ء کی بھارت، پاکستان جنگ کے بعد یہ روڈ بند کردیا گیا تھا، جس سے لدّاخ اور اسکردو کے خاندان تقسیم ہوگئے۔ مظاہرہ کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ سِلک روڈ کھولی جائے تاکہ منقسم خاندان ایک دوسرے سے مل سکیں اور وسط ایشیائی ریاستوں سے پرانے کاروباری تعلقات قائم ہو سکیں، جس سے لدّاخ اور اسکردو کی معاشی حالت میں بہتری آ سکے گی۔ مقامی لوگ ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ اسکردو سے لدّاخ تک 173کلو میٹر کا فاصلہ ہے، جب کہ خاندانوں کو ملنے کے لیے دہلی سے گھوم کر آنا پڑتا ہے اور یہ فاصلہ 1700کلو میٹر پر محیط ہے۔ پاکستان کو تو سِلک روڈ کُھلنے پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم بھارت اس معاملے پر مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

پاکستان میں بعض لبرل نام نہاد بھارتی جمہوریت اور’’ شائننگ بھارت‘‘ کے راگ الاپتے ہیں، جب کہ وہاں ایک ارب 30کروڑ آبادی میں سے صرف 50کروڑ’’ آسودہ آبادی‘‘ کی مارکیٹ ہے۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ معیشت دان، امرتاسین اور دیگر کا کہنا ہے کہ ’’بھارت کے چار بڑے مال دار ترین ارب پتیوں کی دولت، 80کروڑ افراد سے زیادہ ہے۔‘‘نیز، وہاں خواتین کے ساتھ دلت ذات کے لوگوں سے بھی زیادہ بُرا سلوک کیا جاتا ہے اور اس موضوع پر عالمی سطح پر بھی بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ اگر ماں کے پیٹ میں بچّی ہو، تو اُسے پیدائش سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ انگریزوں نے بھارت کی ایک قدیم رسم پر پابندی لگا دی تھی، لیکن اب بھی کہیں نہ کہیں یہ رسم جاری ہے، جس کے مطابق شوہر کے مرنے پر بیوی کو دلہن بنا کر، ہار سنگھار کرکے شوہر کے ساتھ جلا دیا جاتا ہے، اس رسم کو ’’سَتی‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں پنڈتوں اور پرہتوں کا فائدہ ہے کہ خاتون کے جلنے کے بعد راکھ سے ملنے والا سونا اُنھیں ملتا ہے۔ جب جہالت کا اس قدر اندھیرا ہو اور پھر پاکستان میں بھی اندھی رسموں کا راج ہو، گو کہ بھارت کے مقابلے میں کم ہے، تو پھر آپس میں لڑنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ بدقسمتی سے اندھیرے کمرے میں کالی بلی ڈھونڈنے سے دونوں مُلکوں کا وقت ضائع ہو رہا ہے اور ترقّی کے راستے مزید دُور اور طویل ہوتے جارہے ہیں۔ آبادی بڑھتی اور غربت کی کھائی گہری ہوتی جارہی ہے۔ چین، بھارت، بنگلا دیش اور پاکستان کی آبادی دنیا کی نصف آبادی کے برابر ہے۔ لہٰذا، ان مسائل پر قابو پانے کے لیےخطّے کے حکم رانوں کو بہت کچھ کرنا ہے، جو امن کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر بھارت کے جنگی ہسٹریا کو لگام نہ دی گئی، تو اس سے صرف دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس ہی کریش نہیں ہوں گی، بلکہ خطّے کے معاشی حالات بھی ابتر ہوجائیں گے۔ بھارت میں جن مُمالک نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ جنگ کے لیے نہیں ہے، بدامنی کی صورت میں یہ سرمایہ کاری واپس بھی جا سکتی ہے۔ اگر وزیراعظم مودی نے بدحواسی میں کوئی احمقانہ حرکت کی اور اندازے بھی غلط ہوگئے، تو پھر تاریخ کا سب سے زیادہ انسانی نقصان ہوگا۔ دُور دُور تک دھواں ہی دھواں ہوگا اور اس کے اثرات دنیا بھر پر مرتّب ہوں گے۔ اس لیے ہوش کے ناخن لیے جائیں، تو بہتر ہے ۔

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں، جہاں دانش مندی نے تیاگ لے لیا ہے اور بڑے لوگ بھی پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں۔ دو، تین بڑی ایٹمی طاقتوں کے سربراہ نفسیاتی مریض دِکھائی دیتے ہیں، جن میں مودی سرِ فہرست ہیں۔ بڑے انسان اس لیے پیدا نہیں ہو رہے کہ ٹیکنالوجی نے انسانوں کو بھی روبوٹ بنانے کی ابتدا کردی ہے اور سرمایہ داری نظام نے دولت کے ارتکاز کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ مُٹھی بھر مال داروں کے پاس آدھی دنیا سے زیادہ دولت ہے۔ ایک بھارتی معیشت دان نے لکھا ہے کہ ’’آبادی کا دھماکا ،بھارت اور پاکستان میں آسانی سے سُنا اور دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ جنگ کی وجہ سرمایہ داری نظام کی زوال پزیری بھی ہے۔ برٹرینڈرسل نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ’’ سرمایہ داری جب زوال پزیری کی طرف جاتی ہے، تو جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔‘‘ اس جنگ کو فلاسفر نے’’ ابلیسی باغ کا بدبودار پھول‘‘ کہا ہے۔ جنگ کے بعد دنیا کی ازسرِنو تقسیم کی جاتی ہے اور ایک نیا سام راج کھڑا ہوجاتا ہے، جیسے دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سام راج کے خاتمے پر امریکی سام راج اُبھرا۔ آج کے سائنس دان بھی مال داروں کی دَریُوزہ گری کرتے ہوئے انتہائی خطرناک ہتھیار تیار کر رہے ہیں، اس لیے اس مرتبہ اور خاص طور پر ڈیجیٹل عہد میں جنگ ہوئی، تو کوئی فاتح ہوگا اور نہ مفتوح۔

یوں لگتا ہے کہ شاید موسمیاتی تبدیلیاں، آبادی کا بم، اسلحے کی بھرمار اور کیمیکلز کے انبار کرّۂ ارض کے خاتمے کا موجب ہوں گے۔ بھارتی چینلز پر بچگانہ باتیں کرنے والوں نے ابھی جنگ کی ہول ناکیاں نہیں دیکھیں، اس لیے جنگی ہسٹریا کو ہوا دی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا کو اپنے عوام سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کس طرح کی دنیا اور کس طرح کے معاشرے میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ وہ افراد جو خود کو’’ لبرل‘‘ کہتے ہیں، اپنی فوج پر تو بڑے دھڑلّے سے تنقید کرتے ہیں، لیکن سات لاکھ فوج کی، جو کشمیر میں ہزاروں بے گناہوں کو شہید اور سات ہزار عورتوں کی بے حرمتی کرچُکی ہے، مذمّت کرتے ہوئے اُن کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ شاید ان لوگوں نے نوم چومسکی اور کارل مارکس کو پڑھا ہوگا۔ ایک نے دنیا بدلنے کی بات کی اور نوم چومسکی نے امریکی سام راج کو بے نقاب کیا، مگر عام طور پر ان دونوں کا ذکر نہیں کیا جاتا، کیوں کہ اس سے عالمی اور مقامی منافع خوروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے پروپیگنڈے کے ذریعے جنگی ہسٹریا پھیلایا جاتا ہے۔ پروپیگنڈے کے ماہر، والٹرلپ مین کا کہنا ہے کہ ’’عوام کو چالاکی اور فریب کے ذریعے ریاست کے مفادات سے دُور رکھا جائے‘‘ یعنی مقبول رائے عامّہ کو تماشائی جمہوریت میں ریاست کے امور اور فیصلہ سازی سے دُور رکھا جانا چاہیے۔ امریکی جعلی دانش وَروں نے عوام کو’’ بھٹکا ہوا ریوڑ‘‘ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام کے شور و غل اور احتجاج سے ریاست کو محفوظ رکھا جائے۔ اسے والٹر لپ مین نے’’ جمہوریت کا فن‘‘ کہا ہے۔ ایک طرف تو عوام کو جاہل کہا گیا ہے، لیکن ووٹ اسی سے لیے جاتے ہیں اور پھر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ’’ پروفیشنل بیوروکریسی کی خدمات لینے ہی میں ریاست کی بقا ہے۔‘‘ جمہوریت کے فن کو عمل میں لانے کے لیے رائے عامّہ کو مینوفیکچر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی مثال دی جاسکتی ہے کہ اس نے کس طرح پروپیگنڈے کے ذریعے پہلی عالمی جنگ میں یہ باور کروا کے کہ امریکا جنگ میں حصّہ نہیں لے گا، اپنے عوام کو پُرسکون رکھا، لیکن امریکی صدر، ولسن نے درپردہ یورپی طاقتوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسلحے اور تیل کی ترسیل جاری رکھنے کے ساتھ جنگ میں بھی حصّہ لے گا۔ یہاں پروپیگنڈے کے منفی اثرات دیکھیے کہ امریکی عوام کو ہالی وُڈ کی بنائی ہوئی ایک فلم دِکھائی گئی، جس میں اپنے ہی سمندر میں ایک امریکی بحری جہاز پر، جس میں ہزاروں امریکی مسافر سوار تھے، جرمنوں نے حملہ کردیا۔ نیز، اس فلم میں امریکیوں کو قتل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اگلے روز امریکا کے شہروں میں جرمنی کو ختم کرنے کے نعرے بلند ہوئے اور جنگی جنون کو انتہا پر پہنچا کر امریکی حکومت نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ اس جنگ میں کروڑوں انسان مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ 1945ء کے بعد جنگ کی ہولناکیاں دیکھ کر یورپ اور امریکا میں امن کو بنی نوع انسان کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا اور اب یورپ کی اقوام 75سال سے پُرامن طور پر زندگی بسر کررہی ہیں، لیکن امریکی اور یورپی ممالک نے اسلحہ سازی سے تیسری دنیا کو جنگوں میں الجھا رکھا ہے۔ ڈپلومیسی کی اختراع گھڑی گئی، لیکن دنیا میں وہی ہوا، جو بڑی طاقتیں چاہتی ہیں۔ بھارت جو وار ہسٹریا پھیلا رہا ہے، وہ اسے مہنگا پڑے گا۔ طیاروں کے گرنے اور پائلٹ کی گرفتاری سے اس کی سبکی ہوئی۔ پاکستان تو ہمیشہ بات چیت سے مسائل کے حل بات کرتا رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کب سبق سیکھ کر مذاکرات پر آمادہ ہوتا ہے۔ جنگ کے تناظر میں ٹالسٹائی کے عظیم ناول پر تبصرہ نہ کیا جائے، تو امن کے لیے دلائل تشنہ رہ جائیں گے۔ ٹالسٹائی نے نپولین کے حملے کو موضوع بناکر انسانی تاریخ کے ان عوامل یا قوانین کو تلاش کرنے کے لیے سوال اٹھائے ہیں، جو انسانوں کی پوری بستیوں میں ایک خاص ولولہ پیدا کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں انسان دوسرے بے گناہ لاکھوں انسانوں کا خون بہانے کو ایک معمولی واقعہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بغیر کسی احساسِ جرم کے یہ کام کرتے ہی چلے جاتے ہیں اور ’’معصوم تاریخ داں‘‘ ان ظالمانہ واقعات کو کسی سربراہِ حکومت یا جرنیل کی بہادری کے کھاتے میں ڈال کر ان تمام انسانوں کو اس مجرمانہ ذہنیت سے بری الذمّہ قرار دے دیتے ہیں، جو عملی اور ذہنی طور پر ان واقعات میں برابر کے شریک رہے۔ سپہ سالاروں اور عالمی افواج کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ انسان ابھی تک’’ انسان‘‘ کے لفظ کی حرمت نہیں سمجھ سکا۔ کیا انسان کی خواہش ہمیشہ یہی رہے گی کہ وہ دوسرے انسان پر فتح پائے، اگر ایسا ہی رہے گا، تو دنیا خود اپنے آپ کو نیست و نابود کردے گی۔

تازہ ترین