• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ڈرائیور ممتاز ڈوگر کو سر درد کے شدید دورے پڑ نے لگے تو میں نے اس سے بلڈ پریشر کے معائنے کے بارے میں پوچھا۔ اس کے مطابق اس کا بلڈ پریشر اس کی جواں سالی کے پہلو سے بہت زیادہ تھا اور شاید یہی اس کے سردرد کی بنیادی وجہ تھی۔ میں نے اسے فوراً طبی معائنہ کروانے اور بلڈ پریشر کی دوا حاصل کرنے پر اصرار کیا جس کے جواب میں اس نے لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے کہا کہ یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا: بوجہ، جوانی کے دنوں میں جسم کے بارے میں اس طرح کی بے پروائی بہت عام سی بات ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اس سے اُسے دل کا دورہ پڑ سکتا ہے یا فالج ہو سکتا ہے۔ جب میری یہ دلیل بھی اکارت ہوتی محسوس ہوئی تو میں نے کہا کہ تم ’خدائی ‘ نظام سے جنگ کر رہے ہو۔ جس طرح سے انسانی جسم تخلیق ہوا ہے اور جس طرح اس میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ قدرت کے اٹل نظام کا حصہ ہیں اور ان کی نفی کرنا یا اُنہیں نظر انداز کرنا ’خدائی‘ نظام سے جنگ کے مترادف ہے۔ یہ بات اُس کی سمجھ میں آ گئی اور پھر وہ ’خدائی نظام‘ کے بارے میں بار بار استفسار کرتا رہا۔

مذکورہ مثال تاریخ اور انسانی سماج کے ادراک کے لئے شاید ضرورت سے زیادہ یک پہلو اور سادہ ہے کیونکہ انسانی جسم فانی ہوتے ہوئے ایک مخصوص مدت کے لئے وجود میں آکر مٹ جاتا ہے جبکہ تاریخ اور سماج کا سلسلہ لا متناہی ہے لیکن اس لا متناہی سلسلے کے اندر انسانی جسم کی مانند مختلف ادوار آتے ہیں، جن کے پیدا ہونے اور اختتام پذیر ہونے کا انسانی جسم کی طرح کا اٹل نظام ہے: یعنی بلڈ پریشر کے پیدا ہونے کی اپنی وجوہات ہوں گی اور اس کا خاتمہ بھی مخصوص عمل کے تحت ہو گا۔ جس طرح ایسے مرض کے لئے موجودہ طریقہ ہائے علاج کا سلسلہ ختم ہونے سے انسانی جسم فنا ہو جاتا ہے ویسے ہی تاریخی ادوار میں ناقابل علاج بیماریوں کے پیدا ہونے سے چالو نظام ختم ہو جاتا ہے اور ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ پتھر کے زمانے سے لے کر موجودہ صنعتی معاشرے کی تعمیر تک مختلف ادوار کے آغاز و انجام کی ایک طویل داستان ہے۔ ان ادوار کی نشاندہی اور خصوصیات کو سمجھنے کے لئے دنیا کے بہترین ذہنوں کے مالک علماء نے ان ادوار کو ارتقائی درجات میں تقسیم کر کے ایک سائنس مرتب کی کہ کس طرح انسانی تاریخ غلامی کے نظام سے لے کر موجودہ صنعتی دور تک پہنچی ہے۔ اگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ سائنس بھی ویسے ہی ہے جیسے انسانی جسم کا طبی تجزیہ۔

ہر دور کی حدود و قیود ہیں اور ان کے اندر بسنے والے انسان صرف اپنی خواہشوں اور تمناؤں کے بل بوتے پر تاریخ کی بنائی ہوئی چار دیواریوں کو پھلانگ نہیں سکتے۔ اس لئے اگر بہت ہی عمومی سطح پر تقسیم کیا جائے تو سماج دو طرح کے دانشوروں میں منقسم ہے، جن میں ایک کو ’تاریخ پابند‘ اور دوسرے کو ’اختیار پسند‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ’تاریخ پابندوں‘ کا دھڑا انسانی ممکنات کو مخصوص دور کی چار دیواری کا پابند قرار دیتا ہے جبکہ ’اختیار پسند‘ مختلف اقدار کو وقت کی بندشوں سے ماورا سمجھتا ہے۔ ’تاریخ پابند‘ سمجھتے ہیں کہ مرد اور عورت کا جو تعلق صنعتی معاشرے میں موجود ہے وہ قبائلی نظام میں ممکن ہی نہیں تھا جبکہ ’اختیار پسند‘ عورت اور مرد کے عشق کو ازلی، ابدی قرار دیتے ہوئے وقت کی حدود سے ماورا سمجھتے ہیں۔ برصغیر میں تاریخ کی حدود کی آگاہی اٹھارہویں صدی کے ادب میں نمایاں طور پر سامنے آنے لگی تھی۔ اگر میر تقی میر کے اس شعر کو خدا کی تقدیر کی بجائے تاریخ کی ناقابل تسخیر دیوار کے طور پر سمجھا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہو گا:

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کہ عبث بدنام کیا

اسی طرح سے غالب کے شعر ’’منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے‘‘ کی تشریح بھی یہی ہے کہ تاریخ کے مخصوص دور میں ایک خاص حد تک ہی بلندی پر منظر بنا سکتے ہیں اور اگر ہم اس سے اگلے دور میں ہوتے (عرش سے ادھر) تو ہم تصورات کی ایک بلند تر سطح تخلیق کر لیتے۔ پنجابی کی کلاسیکی شاعری میں بھی اٹھارہویں صدی میں تاریخ کی شکست و ریخت کو ایک مخصوص سیاق و سباق میں سمجھا گیا اور اسے ترتیب نو دینے کی آرزو میں بلھے شاہ یہاں تک پہنچ گئے:

جد میں سبق عشق دا پڑھیا، مسجد کولوں جیوڑا ڈریا، ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا

(جب میں نے عشق کا سبق پڑھا تو میرا دل مسجد سے خوفزدہ ہو گیا۔ میں ہندو پروہت کے ڈیرے پر جا پہنچا)

اسی تمنا کا میر تقی میرنے اس طرح اظہار کیا:

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیاہو ان نے تو

قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

’تاریخ پابندوں‘ اور ’اختیار پسندوں‘ کی بحث کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ مختلف مذہبی عقیدوں کے پیروکار تو تاریخ کی حدود و قیود کو تسلیم ہی نہیں کرتے لیکن مشاہدہ یہ بتا رہا ہے کہ وہ مکاتب فکر جو تاریخی سچائیوں کے سیاق و سباق میں نظریاتی ساخت کے قائل تھے وہ بھی دانستہ یا نادانستہ اپنی ترقی پسند اقدار کو ابدی اور ازلی سمجھنے لگے ہیں۔ مثلاً ان حلقوں میں صوفیاء یا دوسرے انسان پرستوں کی پیش کی گئی اقدار منجمد شدہ اصولوں کا ایک مجموعہ ہے جس کو ہر نیا آنے والا مفکر دہراتا ہے۔ ان کو مفکرین کی پیش کردہ اقدار میں کوئی ارتقا نظر نہیں آتا اور نتیجتاً ان کا فکری ڈھانچہ بھی مذہبی عقیدہ پرستوں سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی ٹھوس مثال یہ ہے کہ ان کے ستر کی دہائی اور آج کے بیانیے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پچھلے چالیس برس میں جس طرح دنیا کی تاریخ چھلانگ لگا کر ایک اور بلندی پر پہنچ گئی ہے وہاں کا تقاضا ہے کہ ایک اور منظر تخلیق کیا جائے۔ روس، چین، کیوبا اور قائم شدہ نام نہاد سوشلسٹ نظاموں کے خاتمے کے بعد کیسے ممکن ہے کہ ہم ساٹھ کی دہائی میں منجمد ہو جائیں اور ہمارا ذہنی تناظر تبدیل نہ ہو!

تازہ ترین