• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:غلام ربانی …لندن
دشمن نے بڑا گہرا اور گھنائونا وار کیا50معصوم اور بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس ظلم و ستم کی لائیو سٹریمنگ کر کے اپنی دہشت اور سفاکیت کو اور بھی خوفناک اور دہشت ناک، سفاک منظر میں پیش کیا، نہ صرف نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد کے نمازی اور ان کی فیملی بلکہ ساری دنیا کے باضمیر انسان اس اندوہناک حادثے پر افسردہ ہیں۔ یہ واقعہ اپنے پہلو میں سمیٹے کئی تاریک گوشوں کے ساتھ ایک بڑا واضح اور روشن پہلو دنیا بھر کے مین سٹریم میڈیا بلکہ نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا تک کے ایوانوں میں گونجتی، آواز اور بیک زبان نہ صرف اسے دہشت گردی قرار دینا بلکہ ’’سفید فام بالادستی‘‘ کی انتہائی دائیں بازو کی سازش اور حملہ گردانتا ہے یہ وہ حقیقت ہے جس سے مغرب اور اس کے اتحادی بشمول امریکہ عرصہ دراز سے آنکھیں چرا رہے تھے اور معاشرے میں پنپنے والے اس عفریت اور ناسور جو اندر ہی اندر مزید گل سڑ کر پورے معاشرے کو تعفن زدہ کرنے کے باوجود اس کا پردہ چاک کرنے اور ایک ’’حقیقت‘‘کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔ اس المناک حادثے کے نتیجے میں نیوزی لینڈ جیسے پرامن اور خوشحال ملک کے ایوان اقتدار سے لیکر مغربی میڈیا تک بار بار اس خاص شکل کی دہشت گردی کا برملا اظہار ہمارے اس خدشے کو درست ثابت کررہا تھا کہ یورپی معاشرے میں پروان چڑھنے والی نسلی منافرت اور رنگ و نسل کی بنیاد بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کے حوالے سے پروان چڑھنے والی انتہاپسندی اور شدت پسندی عنصر کا اگر بروقت سدباب نہ کیا گیا اور عملی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو یہ لاوا دنیا کے امن و سکون کو جلا کر بھسم کرتے ہوئے بہت کچھ جلا کر راکھ کردے گا یہاں یہ بات صرف نظرنہیں ہونی چاہئے کہ عرصہ دراز سے ہمارا مطالبہ تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا نہ اسے کسی خاص مذہب سے جوڑنا دانشمندی ہے بلکہ دہشت گرد اور انتہاپسند کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں دہشت اور تشدد کی بنیاد پر خوف و ہراس پھیلنا اور لوگوں کو دہشت زدہ کرکے باہمی عداوت اور نفرت کی دیواریں کھڑی کرنا ہے۔ بدقسمتی سے مغربی میڈیا اور سیاسی زعماء اس بصیرت سے عاری یک زبان ہوکر ایک ہی راگ الاپ رہے تھے اور وہ تھا اسلامی دہشت گردی، اسلامی انتہاپسندی، مسلم دہشت گرد، مسلم انتہاپسند، مشرق تا مغرب کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو اور ملوث شخص مسلمان ہو تو اس کا نام، علاقہ ملک سب قانونی چیزیں تھیں سب سے پہلا اور ہیڈلائن کا سخن تعارف ’’اسلامک ٹیررسٹ اور ایکسٹریمسٹ‘‘ ہی ہوا کرتا تھا۔ نتیجتاً عام سادہ فہم اور بین الاقوامی سیاسی نزاکتوں اور باریکیوں سے عاری ذہن نفس مسئلہ کو سمجھنے کے بجائے ’’اسلام‘‘ جیسے عظیم دین کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کا منبع سمجھنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص ذہن تیار ہونے لگا جس کے نزدیک اگر دنیا سے تشدد اور دہشت کے عفریت کو اگر شکست دینی ہے تو اسلام کا علاج کرنا ہوگا ورنہ یہ ناسور معاشرے سے ختم ہونے والا نہیں۔ آج کتنے ہی نوجوان جن کا فسٹ ہیڈ سورس یا ذریعہ معلومات میڈیا ہے کسی مسلمان سے ملے اور اسلام کی العامی کتاب قرآن کا مطالعہ کے بغیر یہ ذہن بنا بیٹھا ہے کہ اسلام اور دہشت گردی باہم لازم و ملزوم ہیں، شاید کچھ عناصر اس روش سے لوگوں کو اسلام سے بد ظن کرنا چاہتے ہوں لیکن جو تصویر اب بن رہی ہے اگر خدانخواستہ میڈیا اور سیاسی زعماء نے اپنا رویہ، اپروچ اور اپنی زبان تبدیل نہ کی اور سب نے ملکر اس بات کو ’’انڈورس‘‘ نہ کیا کہ دہشت گردی کا کسی مذہب یا خاص رنگ و نسل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ سارے لبادے ہیں جن میں جنونی طبقہ اپنے ذاتی مفادات یا ناپاک مقاصد اور عزائم کے لئے استعمال کرتا ہے، تو آنے والا وقت ہمارے ہاتھ میں نہ ہوگا اور ہم سب اس آگ میں جل رہے ہوں گے جو بعض نے دانستہ اور بعض نے نادانستہ کسی اور کا گھر جلانے لے لئے لگائی تھی۔ اب بھی وقت ہے مستقبل کے حالات کا ادراک کرتے ہوئے ہم سب کو ملکر حکمت و دانش سے اس مسئلے کے حل کے لئے بیٹھنا ہوگا ورنہ کف افسوس ملنے کے سوا شاید کچھ ہاتھ نہ آئے۔
تازہ ترین