• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی جانب سے ایف بی آر قوانین میں تبدیلی کے بعد انکم ٹیکس عہدیداروں نے ملک بھر میں کاروباری اداروں اور فیکٹریوں پر چھاپے مارنا شروع کر دیئے تھے جس سے بزنس کمیونٹی میں شدید خوف و ہراس پیدا ہو گیا تھا اور ملک بھر میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی تھیں۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI)نے اس مسئلے پر ایک اہم اجلاس گزشتہ دنوں فیڈریشن ہائوس میں منعقد کیا جس میں ایف بی آر کے چیئرمین جہانزیب خان کے ساتھ ممبر ان لینڈ ریونیو سیما شکیل، ایل ٹی یو، آر ٹی یو اور کارپوریٹ ریجن کے چیف کمشنرز، کسٹم چیف کلکٹرز ثریا بٹ اور واصف میمن جبکہ فیڈریشن کی طرف سے میرے علاوہ ایف پی سی سی آئی کے صدر دارو خان اچکزئی، نائب صدور ارشد جمال، مسلم محمدی، زبیر طفیل، خالد تواب، اشتیاق بیگ، مظہر اے ناصر، عبدالسمیع خان اور بزنس کمیونٹی کے سینئر لیڈرز نے شرکت کی۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس وقت ملک میں کاروباری سرگرمیاں تعطل کا شکار ہیں جس کی اہم وجہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 177-178کے تحت ایف بی آر کو ملنے والے اضافی اختیارات ہیں جس کو استعمال کرکے ایف بی آر اہلکار آج کل کاروباری دفاتر اور فیکٹریوں پر چھاپے مارکر کاروباری شخصیات کو نہ صرف گرفتار کر رہے ہیں بلکہ ان کے کمپیوٹر، الیکٹرونکس ڈیٹا اور تمام ریکارڈ ضبط کرکے اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں جن میں انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ کاروباری حضرات بھی شامل ہیں جس سے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے اور کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جو پی ٹی آئی حکومت کی بزنس مین فرینڈلی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ میں نے بتایا کہ ایف بی آر قانون کے تحت کاروباری شخصیات یا اداروں کو پہلے نوٹس جاری کرکے مطلوبہ معلومات مانگ سکتا ہے اور 2نوٹسز کے بعد اگر مطلوبہ معلومات فراہم نہ کی جائیں تو ایف بی آر کارروائی کر سکتا ہے، ایف بی آر چھاپوں سے کاروباری طبقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے بجائے ٹیکس مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرے تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ میں نے بتایا کہ ایف بی آر نے ADRCsکمیٹیاں تشکیل دی تھیں جس میں ایف بی آر کے ساتھ نجی شعبے کے پروفیشنلز اور بزنس مین شامل تھے جو ٹیکس معاملات عدالتوں کے بجائے باہمی افہام و تفہیم سے حل کرتے تھے جس سے حکومت کو خطیر ٹیکس ریونیو بھی حاصل ہوا تھا لیکن اس وقت 38ارب روپے کے ٹیکس وصولی کیسز التوا کا شکار ہیں جنہیں ARDCکے ذریعے عدالتوں کے باہر حل کیا جا سکتا ہے لیکن ان ARDCsکو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر کو تجویز دی کہ ARDCsکو فوراً بحال کیا جائے۔

ملکی ایکسپورٹس میں کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے میں نے بتایا کہ تین چار سالوں سے ایکسپورٹرز کو ریفنڈ نہیں دیئے گئے جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کا ورکنگ کیپٹل کم ہو گیا ہے اور اس کے ایکسپورٹ پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ 2004-05ء میں پورے ملک سے ایف بی آر کی ٹیکس وصولی تقریباً 600ارب روپے تھی جو 14سے 20فیصد سالانہ گروتھ کے بعد 2017-18ء میں 3800ارب روپے پہنچ گئی جبکہ 2018-19ء میں ریونیو وصولی کا ہدف 4400ارب روپے رکھا گیا ہے جو آپ کے انہی اہلکاروں نے بغیر چھاپوں کے انہی بزنس مینوں سے وصول کئے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافہ اور ڈائریکٹ ٹیکسز میں کمی ہو رہی ہے جبکہ دنیا بھر میں ڈائریکٹ ٹیکسز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہمیں جی ڈی پی میں ٹیکس شرح بڑھانے کیلئے نئے ٹیکس دہندگان شامل کرنا ہوں گے۔ ایف بی آر کے پاس لائف اسٹائل کی بنیاد پر ڈیٹا موجود ہے جو ایسے ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی کرتا ہے۔ فیڈریشن معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومت کے ساتھ ہے۔ اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ امپورٹس میں کمی اور معاشی سرگرمیاں سکڑنے کی وجہ سے اس سال ریونیو وصولی کے ہدف میں اب تک 2.233روپے کی کمی ہوئی ہے۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ فیڈریشن اس سلسلے میں ان کی بھرپور مدد کرے گی۔ممبر ان لینڈ ریونیو سیما شکیل نے اپنی تقریرمیں اس بات کا اعتراف کیا کہ فیڈریشن کے مطالبات جائز ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان جو ایک ایماندار اور پروفیشنل بیوروکریٹ ہیں، سے میری دوستی 2009ء سے ہے جب وہ فرانس میں پاکستانی ایمبیسی پیرس میں کمرشل قونصلر تعینات تھے۔ ان کے بعد موجودہ چیف کلکٹر کسٹم ثریا بٹ پیرس میں کمرشل قونصلر تعینات ہوئی تھیں اور ٹیکسٹائل کی تمام بڑی نمائشوں میں ہماری مدد کرتی تھیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے تمام سوالوں کے فرداً فرداً جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ایکسپورٹرز کے ٹیکس ریفنڈ کیلئے 80ارب روپے کے Promissory Notesجنہیں بینکوں سے ڈسکائونٹ کرایا جاسکے گا، کے علاوہ 50ارب روپے کے مزید ریفنڈز دیئے جائیں گے جس میں انکم ٹیکس کے چھوٹے ریفنڈز کو بھی ترجیح دی جائے گی۔ اس موقع پر انہوں نے فعال ٹیکس دہندگان کے ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں 31مارچ 2019ء تک توسیع کا بھی اعلان کیا۔فیڈریشن کی درخواست پر چیئرمین ایف بی آر نے اعلان کیا کہ اب کاروباری اداروں اور فیکٹریوں پر چھاپے نہیں مارے جائیں گے اور اس سلسلے میں جاری ہونے والے تمام نوٹسز واپس لے لئے جائیں گے جبکہ جنہیں شوکاز نوٹسز جاری کئے گئے ہیں، وہ اس کا جواب دیں۔ میں نے چیئرمین ایف بی آر سے درخواست کی کہ وہ فیڈریشن کیلئے ایف بی آر میں کوئی فوکل پرسن مقرر کریں تاکہ کاروباری اداروں پر چھاپوں کی صورت میں فیڈریشن ان سے رابطہ کر سکے جس پر انہوں نے ایف بی آر کا فوکل پرسن مقرر کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ایف بی آر کسی بھی صورت بزنس کمیونٹی کو ہراساں نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری زیادہ توجہ ٹیکس دہندگان کے بجائے ٹیکس ادا نہ کرنے والوں پر ہے اور ایسے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ان کے بیرونِ ملک سفر، لگژری گاڑیاں، بچوں کی اسکول کی بھاری فیسیں اور ان کا نادرا ڈیٹا حاصل کر لیا گیا ہے۔ بے نامی اکائونٹس کے بارے میں ایف بی آر نے ایک علیحدہ ڈیپارٹمنٹ بنایا ہے اور جلد ہی ایف بی آر کے اعلیٰ عہدیدار بے نامی اکائونٹس ضبط کرنے کے طریقہ کار کے سلسلے میں فیڈریشن کو ضروری معلومات فراہم کریں گے۔ چیئرمین ایف بی آر کے فیڈریشن میں کاروباری اداروں اور فیکٹریوں پر چھاپوں پر پابندی کے فیصلے کو پورے ملک کی بزنس کمیونٹی نے سراہا ہے جس سے ملک میں خوف و ہراس کی فضا ختم ہو گی اور ملکی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا، جس کیلئے ایف پی سی سی آئی، چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان اور اُن کی ٹیم کی شکر گزار ہے۔

تازہ ترین