میں نے جب یہ کالم تحریر کرنے کا ارادہ کیا تو میرے سامنے تین اہم واقعات تھے ۔ اول سانحہ نیوزی لینڈکے بعد وہاں کی خاتون وزیراعظم جسینڈا آرڈن نے جس احسن انداز میں ظلم کا شکار اپنے ملک کی اقلیتی کمیونٹی کے آنسو پونچھے، اس نے بلاشبہ دنیا بھر کے امن پسند عوام کے دل جیت لئے ، دوسرے یوم ِ پاکستان کے موقع پر مہمان خصوصی ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کا دانشمندانہ خطاب جس میں انہوں نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے سنہری گُر بتلائے کہ میں نے پہلے دن یہ طے کیا کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا بلکہ دوطرفہ تجارت میں اضافہ کروں گا اسلئے آج ملائیشیا کا کوئی سرکاری دشمن نہیں، انہوں نے ملکی ترقی کیلئے جاپان اورجنوبی کوریا کو اپنا رول ماڈل قرار دیا۔ تیسرا پاکستانی محب وطن ہندو کمیونٹی کی جانب سے ہولی تہوار کو یوم پاکستان کے نام منسوب کرکے اپنے پیارے وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار اور بہادر افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ میں گزشتہ ہفتہ دنیا بھر کی اقلیتی برادریوں کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جائے گا جس کا ایک پہلو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کااقلیتوں کے تحفظ کیلئے مثبت کردار اور دوسرا پاکستانی ہندو اقلیت کاجذبہ حب الوطنی ۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جب پاکستانی ہندو باشندے ہولی کا تہوار قائداعظم اور تحریک پاکستان کے اکابرین کے نام کرتے ہوئے مذہبی ہم آہنگی اور قومی وحدت کی ایک روشن مثال قائم کررہے تھے، عین ہولی کے دن کچھ شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے دوکمسن ہندو بہنوں کو اغوا کرنے میں کامیاب ہوگئے،پاکستان ہندوکونسل کو موصول تازہ اطلاعات کے مطابق ایک اور تیسری ہندو بچی کو ٹنڈویوسف سے اغواکرلیاگیا ہے۔ نیوزی لینڈ کا شمار دنیا کے صف اول کے پرامن اور خوشحال ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر دہشت گردی کے المناک واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کررکھ دیا، شہدائے نیوزی لینڈکے خونِ ناحق نے پوری دنیا کو ثابت کردیا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیںہوتا،جسینڈا جیسے لوگ عظیم ہوتے ہیں جو تمام تعصبات اور اختلافات کو خیرباد کہتے ہوئے مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں، میری نظر میں خاموش رہنے والا تماش بین بھی ظالم کا ساتھی ہے میں نے ہولی تہوار کی تقریب کے موقع پر یہی کہا تھا کہ ہولی کا تہوار یہ درس دیتا ہے کہ آخری فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، آج ہر سمجھدار انسان مشاہدہ کرسکتا ہے کہ حملہ آور دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے اور نیوزی لینڈ کی فضائیں اس عبادت گاہ سے اٹھنے والی اذان کی مقدس آواز سے گونج اٹھی ہیں جسے خاموش کرنے کیلئے اس نے ہتھیار کا سہارا لیا۔مسلمان اقلیتی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خاتون وزیراعظم نے پیغمبراسلام ﷺ کی حدیث مبارکہ کا حوالہ دیا کہ تمام اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں ، اگر ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو دوسرا درد محسوس کرتا ہے،انہوںنے کیا خوبصورت بات کہی کہ اسلام انسانیت کا درس دیتا ہے اور انہوں نے فقط انسانیت کی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے۔جبکہ نیوزی لینڈ کے عوام نے اپنی ہردلعزیز وزیراعظم کے ہم آواز ہوکر ثابت کردیا کہ وہ نیوزی لینڈ میں بسنے والی مسلمان اقلیت کو اپنا سمجھتے ہیں اور انکے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے اپنے سروں کو ڈھانپ کرباادب موجود ہیں۔ ہمار ا ملکی آئین بھی اقلیتی غیرمسلم شہریوں کی حفاظت کی یقین دہانی کراتا ہے۔ آج آزادی کے 72سال بعد یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ کچھ شدت پسند عناصر کی جانب سے کمزور کمسن ہندو بچیوں کو اغواء کرکےاور زبردستی شادی کراکے محب وطن اقلیتی کمیونٹی کے احساس عدم تحفظ میں اضافہ کیا جارہا ہے اور عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسلام برصغیر سمیت دنیا بھر میں امن و محبت کے پیغام سے پھیلا ہے،آج بھی اگر کوئی اپنی رضامندی سےمذہب تبدیل کرنے کیلئے باعزت قانونی طریقہ کار اختیار کرے تو کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوگی لیکن مجھے ایسی کوئی مثال بتائی جائے جس میں معصوم بچیوں کو والدین سے جداکرکے دن رات آنسو بہانے پر مجبور کرنے کو صحیح اقدام ثابت کیا جاسکے۔ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں کہ ا للہ کے آخرینبی ﷺ نے پرندوںکے بچوں کو بھی واپس گھونسلے میں رکھنے کی تلقین کی تھی جب انہوں نے قافلے کے اوپر غمزدہ ماںکو بے قرار اڑتا دیکھا۔ یہاں ہندو بہنوں کی غمزدہ ماں کو ہارٹ اٹیک کی اطلاعات ہیں تو مظلوم باپ کو سڑک پر پاگل پن کے دورے پڑرہے ہیں۔ بطور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل تمام ہندو بچے بچیاں میری سگی اولاد کی مانند ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب میں نے پڑوسی ملک کا پروپیگنڈہ توڑتے ہوئے حق و سچ کی آواز بلند کی تو مبینہ اغواء کاروں کے دباؤ پر میرے اور مظلوم والد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی، اس حوالے سے میں اپنا ویڈیو پیغام جاری کرچکا ہوں کہ حق و انصاف کی خاطر ڈٹ کر قانونی محاذ پر بھی مقابلہ کروں گا، میں شکرگزار ہوں میڈیا اور سول سوسائٹی کے تمام دوستوں کا جنہوں نے انسانی ہمدردی اور اصولوں کی خاطر میرا ساتھ دیا۔اگر نیوزی لینڈ جیسے سیکولر ملک کی وزیراعظم اپنے ملک کی مسلمان اقلیت کی دلجوئی کی خاطر مسجد میں حاضری دے سکتی ہے اور میڈیا پر اذان نشر کرواسکتی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری مظلوم غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں ؟آج ہم سب کو مظلوم ہندو والدین کا درد سمجھتے ہوئے معصوم نابالغ بچیوں کی بازیابی کیلئے آواز بلند کرنی ہوگی اور جبری مذہب تبدیلی ، کم سن بچیوں کی شادی اور ملک کوبدنام کرنےکی کوششوں کی مذمت کرنے کیلئے میرے پیش کردہ بل اور قرارداد کی متفقہ طور پر حمایت کرکے قائداعظم کے و ژن کو آگے بڑھانا چاہئے،مجھے کامل یقین ہے کہ معاشرے کے تمام باشعور اور سمجھدار طبقات قائداعظم کے وژن پر پاکستان کو ڈھالنے کیلئے میری پر امن جدوجہدکی حمایت جاری رکھیں گے، میںیہ امیدبھی کرتا ہوں کہ تمام پارلیمانی جماعتیں اس نیک مقصد کیلئے قانون سازی میں میرا بھرپورساتھ دیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)