• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات حیرت اور افسوس کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ ایک محتاط تخمینے کے مطابق گزشتہ 23برسوں میں صرف پاکستانی شہریوں نے (اداروں کے علاوہ) ملکی قوانین کے تحت 160ارب ڈالر سے زائد کی رقوم ملک سے باہر منتقل کیں۔ گزشتہ حکومت نے اس ضمن میں کچھ غیرمؤثر اقدامات اٹھائے تھے مگر موجودہ حکومت نے اب تک اس معاملے میں کچھ نہیں کیا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 31؍جنوری 2019کو پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم تقریباً 101ارب ڈالر تھا۔ اگر ملکی قوانین کے تحت سوائے تعلیم اور علاج معالجے کے کسی اور مقصد کیلئے رقوم ملک سے باہر منتقل کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو دو بڑے ڈیم تعمیر کرنے اور قدرت کے عطا کردہ معدنی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے، پیداواری مقاصد کیلئے بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے لینے کے باوجود آج ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم بہت کم ہوتا، معیشت 8-10فیصدسالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہوتی، جی ڈی پی کا حجم 300ارب ڈالر کے بجائے 1500ارب ڈالر ہوتا اور ہماری برآمدات 26ارب ڈالر سالانہ کے بجائے 150ارب ڈالر سالانہ ہوتیں۔

گزشتہ برس سپریم کورٹ کو بتلایا گیا تھا کہ ناجائز طریقوں سے 150ارب ڈالر کی رقوم ملک سے باہر منتقل کی گئیں۔ واضح رہے کہ قانونی طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کی گئی یہ رقم، 160ارب ڈالر کی رقوم کے علاوہ ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے میاں ثاقب نثار نے یکم فروری 2018کو لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لانے کیلئے ازخود نوٹس آئین کی شق 184(3)کے تحت لیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مفاد عامہ کا کیس بنتا ہے کیونکہ یہ رقوم اگر پاکستان واپس آ جائیں تو نہ صرف تعلیم و صحت کیلئے زیادہ رقوم مختص کی جا سکیں گی بلکہ پاکستان اپنے تمام بیرونی قرضے بھی ادا کر سکتا ہے۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے 12؍جون 2018کو قرار دیا کہ عدالت کو حکومت کی 8؍اپریل 2018سے نافذ کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر کوئی اعتراض نہیں حالانکہ اس اسکیم کے تحت صرف 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر لوٹی ہوئی یہ رقوم باہر ہی رکھی جا سکتی تھیں۔ یہ توثیق لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان لانے کے عزم کی نفی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد جو قانون سازی کی, اسکے تحت سیاست دانوں و ممبران پارلیمنٹ سمیت ہر پاکستانی کو موقع دیا گیا کہ وہ آف شور میں رکھی ہوئی ناجائز رقوم پاکستان لائے بغیر قانونی تحفظ حاصل کر لیں۔

مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے پاکستان ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور ملکی سرمایہ کاری کی مد میں تقریباً 11ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کر رہا ہے۔ یہی نہیں بدعنوانی، شاہانہ اخراجات اور حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قومی خزانے کو 4ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ مندرجہ بالا تمام گزارشات کی روشنی میں قوم کو بھی اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ ہم کیا کچھ کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے انتخابات سے پہلے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے، ان میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100روز کے اندر قرضوں پر انحصار کم کرنے اور معیشت بحال کرنے کیلئے عدل پر مبنی ٹیکسوں کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ اب 7ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس نظام کے نافذ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گزشتہ 8ماہ میں معیشت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ (1)اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پچھلی حکومتوں پر عوام کو اعتماد نہیں تھا، اس لئے وہ ٹیکس نہیں دیتے تھے لیکن گزشتہ 8ماہ میں ٹیکسوں کی وصولی میں اضافے کی شرح گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں کمتر رہی، یہی نہیں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے بھی 233ارب روپے کم رہی۔(2)براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 22.6 فیصد اور مجموعی سرمایہ کاری میں 72فیصد کمی ہوئی۔(3) جولائی سے جنوری 2019تک ملک کے مجموعی قرضوں میں 3346ارب روپے کا تاریخی اضافہ ہوا۔(4)گزشتہ 8ماہ میں تجارتی خسارے میں 11فیصد اور جاری حسابات کے خسارے میں 22فیصد کمی ہوئی جبکہ بیرونی ترسیلات میں تقریباً 12فیصد کا اضافہ ہوا۔ ترسیلات کو سرمایہ کاری کے بجائے تجارتی خسارے کی مالکاری کیلئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس نے 2007میں بینکوں کے قرضوں کی معافی کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔ ہم نے 14؍دسمبر 2009کو بینکوں کے قرضوں کی معافی کے ضمن میں سنگین غلط کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا تھا کہ قرضوں کی معافی کا اسٹیٹ بینک کا سرکلر نمبر 29مورخہ15؍اکتوبر 2002 پارٹنر شپ ایکٹ اور انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے۔چیف جسٹس نے 24؍دسمبر 2009 کو کہا تھا کہ عدالت اس سرکلر کا جائزہ لے گی۔ 9برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود فیصلہ نہیں آیا چنانچہ معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اس غیرقانونی سرکلر سے فائدہ اٹھانے والے بدستور مزے کر رہے ہیں۔

پاکستان اگلے چند ہفتوں میں سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرے گا، اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر مزید بیرونی قرضے بھی لئے جائیں گے۔ ان سب کے باوجود اگر تحریک انصاف نے قوم سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا تو اگلے مالی سال میں بھی معیشت کی شرح نمو سست رہے گی، مہنگائی کی اونچی شرح برقرار رہے گی اور بیرونی شعبہ مشکلات کا شکار رہے گا نتیجتاً پاکستان اپنے کچھ بیرونی قرضوں کی تجدید اور دوست ممالک کے اسٹیٹ بینک میں رکھے ہوئے ڈپازٹس کی مدت میں توسیع کروانے پر مجبور ہو گا جس کی بہرحال قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

تازہ ترین