عبدالغنی بجیر،تھرپارکر
حال ہی میں ضلع تھرپارکر میں سائبر کرائمز کے واقعات نئے انداز میں منظر عام پر آئے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جرائم نے بھی انوکھی شکل اختیار کر لی ہے۔انٹرنیٹ کے غیر ضروری استعمال اورکم سنی سے بلوغت کی جانب گامزن بچوں میں اسمارٹ موبائل فون خریدنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ نا سمجھ، کم عمر اور اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ اپنے اس شوق کے ہاتھوں بسا اوقات بد قماش افراد کے چنگل میں بھی پھنس جاتے ہیں جو ان کی نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں اور ان کے والدین کو بلیک میل کرکے بڑی بڑی رقومات بٹورتے ہیں۔ طلبہ مختلف قسم کی لالچ میں بگڑے ہوئے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔بڑے شہروں میں سائبر کرائمز سے متعلق شکایات سننے اور ان پر کارروائیوں کے لیے ایف آئی اے سائبر کرائم کا محکمہ کام کررہا ہے لیکن صوبے کے دور افتادہ اضلاع میں اس محکمے کا کوئی دفتر موجود نہیں ہے۔ یہاں سائبر کرائم کی ،روک تھام کا واضح نظام نہ ہونے کے باعث پیچیدگیاں دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں ۔حالیہ دنوں میں سائبر کرائمز کے تین واقعات صحرائے تھر کے مختلف شہروں میں رونما ہوئے ہیں ۔تفصیلات کے مطابق ضلع تھرپارکر کے صدر مقام ، تحصیل مٹھی میں کچھ روز قبل دو ملزمان نے نویں جماعت کے طالب علم ،رونق کمار کو ورغلا کر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی نازیبا ویڈیوز بنا کر اپنے پاس محفوظ کر لیں اور بعد ازاں دونوں ملزمان، سروپ سنگھ ٹھاکر اور سرجیت کمار مذکورہ طالب علم کو بلیک میل کر تے رہے۔ بات نہ ماننے کی صورت میں بچے کی ویڈیوز ،سوشل میڈیا پروائرل کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ ملزمان کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر رونق کمار نے اپنے والدین سے سارا ماجرا بیان کیا ۔مذکورہ طالب علم کے مطابق بلیک میلروں کے اس گروہ میں دیگر افراد بھی ملوث ہیں۔ بچے کے والدین نے مقدمہ درج کروانے کے لئے مٹھی تھانے کا رخ کیا مگر ملزمان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس میں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو سکی۔ وہاں سے مایوس ہونے کے بعد انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور منتخب عوامی نمائندوں سے بھی رابطہ کیا لیکن ملزمان کا اثر رسوخ وہاں بھی آڑے آیا۔
چند روز قبل متاثرہ خاندان کے افراد نے پاکستان ہندو کونسل کے چیف پیٹرن ایم این ای رمیش کمار وانکوانی کو درخواست دے کر بلیک میلروں کے مذکورہ گروہ کے ہاتھوں اپنے بچے کو تحفظ دلوانے کی اپیل کی۔ اقلیتی رہنماؤں کی کوششوں سے پولیس کی اعلی افسران کے احکامات پر دونوں ملزمان کے خلاف بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کرنے کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ پولیس نے ملزمان کو سیشن جج مٹھی کی عدالت میں پیش کیا جہاں پر ملزمان کے وکیل نے ضمانت کی درخواست دائر کی مگر سیشن جج نے درخواست کو مسترد کر دیا ۔بعد ازاں سیشن جج کے حکم پر عدالت کے احاطے میں موجود پولیس اہل کاروں نے دونوں بلیک میلروں کو گرفتار کر کے لاک اپ میں بند کردیا۔
متاثرہ بچے کے والد مہیش کمار لوہانو نے صحافیوں کو بتایا کہ مذکورہ ملزمان کی گرفتاری کے بعد وہ انصاف کے لیے پر امید ہیں لیکن مذکورہ گروہ کو بااثر شخصیات کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے انہیں بلیک میلر گروہ کی جانب سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کا خطرہ ہے۔ باوثوق ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق حوالات میں قید دونوں ملزمان کم سن بچوں اور نو عمر طلباء کی مخرب الاخلاق وڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے والے گروہ کے سرغنہ ہیں ۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ گروہ کے ارکان کو صوبے کی بعض اعلیٰ شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔ اگر غیرجانب دارانہ انداز میں تحقیقات کی جائے اور تفتیش کے دائرہ کار کو سیع کیا جائے تومذکورہ واقعات کی پشت پر شامل مافیا کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔
اسی قسم کا دوسرا واقعہ بھی مٹھی میں پیش آیا ۔ دسویں جماعت کے طالبعلم کرتن کمار کے والدین نے پولیس کو درخواست دی کہ ہنومان مندر کےپجاری اشولال اور اس کے دو ساتھیوں نے پوجا کے دوران ان کے بیٹے کو مندر میں محبوس کرلیا اور اس پر تشدد کے بعد اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیوز بناتے رہے۔ پولیس نے والدین کی درخواست پر کارروائی کرنے کی بجائے معاملہ رفع دفع کرکے انہیں گھر واپس بھیج دیا۔
سائبر کرائمزکی وارداتوں کے سلسلے کا تیسرا واقعہ مٹھی کے قریبی شہر چیلہار میں رونما ہوا۔ یہاں بھی بلیک میلروں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے تین ملزمان نے دسویں جماعت کے طالب علم ، ونود کمار کو پہلا پھسلا کر اغوا کرنے کے بعد ایک گھر میں محبوس کرلیا اور اسے ہراساں کرنے کے بعد اس کی نازیبا ویڈیوز بنائی گئیں جس کے ذریعے ونود کمار کو بلیک میل کیا گیا۔ طالب علم کی شکایت پر پولیس نے مذکورہ تینوں ملزمان، علی سمیجو،ہریش میگھواڑ، اور نظام منگریوں کے خلاف ایف آئی آردرج کرکے انہیں گرفتار کرلیا۔ تینوں ملزمان نے پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا۔ تسلسل کے ساتھ بلیک میلنگ کے مذکورہ واقعات کے بعد بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم کے رہنما، کاشف بجیر نے بتایا کہ سندھ بھر میں موبائل فون کے ذریعے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز بناکر بلیک میلنگ کا کاروبار کرنے والے گروہ سرگرم ہیں جب کہ سندھ میں قائم چائلد پروٹیکشن اتھارٹی اور ایف آئی اے سائبر کرائم کا محکہ غیر فعال ہے۔ سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق 29 اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے دفاتر کا قیام عمل میں لانا تھا لیکن تھرپارکر ضلع میں اب تک کسی بھی ضٗلع میں دفتر قائم نہیں کیا گیا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے لیے مختص 20کروڑ روپے کے بجٹ کا بھی زیاں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت اس گھنائونے جرم میں ملوث افراد کی ڈیٹا جمع کیا جائے اور ساتھ ہی سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کو فعال بنا کر ضلعی سطح پر آفیسز قائم کر کے ان واقعات کو منظر عام پر لا کربلیک میلنگ میں ملوث افراد اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرکےان کے خلاف بلا تخصیص کارروائی کی جائے تاکہ اس قسم کے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔