• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: سید علی گیلانی…سوئٹزرلینڈ
نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد ہر ملک کا انسان اسی خاتون کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح اس خاتون نے اپنے ملک کے مسلمان باشندوں کی ڈھارس بندھائی کس طرح یکجہتی کا اظہار کیا اور فوری طور پر وزیراعظم کے عہدے کا استعمال کرکے انتظامی اور قانونی اقدامات کئے اور دہشت گردوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور یہ ثابت کیا کہ نیوزی لینڈ میں اقلیتوں کے منصب کا، ان کی اقدار کا، مساوی شہریت کا احترام کیا جاتا ہے۔ اپنی وزیراعظم کی پیروی کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے شہریوں نے انسانی ہمدردی، دوستی، اخلاق کی اعلیٰ مثال پیش کی اور جب دوسرے ہفتے پھر نماز جمعہ ہوئی تو مسجدوں کی حفاظت کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ وزیراعظم جیسنڈا اور نیوزی لینڈ کے عوام نے، ریاستی اداروں نے جس طرح انسانی محبت کا اظہار کیا تمام مسلمانوں کے دل میں نہ ختم ہونے والی محبت اجاگر کردی ہے۔ وہاں مسلمان اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے اور کسی اقلیتی باشندے کو نیوزی لینڈ چھوڑنے کی ضرورت نہ ہو گی، نیوزی لینڈ میں بہترین جمہوریت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس دہشت گردی کے المناک واقعہ کے باوجود کسی ملک کو نیوزی لینڈ کے سیاسی ریاستی بندوبست، قیادت اور معاشرتی رویوں پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکا اور جیسنڈا کا پارلیمنٹ میں ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر تقریر شروع کرنا جرأت کی بات ہے، پھر سرکاری نشریاتی ادارے سے اذان2منٹ کی خاموشی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنا، کسی نسل پرست سیاستدان نے آج تک جیسنڈا کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا، کیونکہ جس طرح مسلمان کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اسی طرح ایک جمہوری معاشرے میں انسانی جان کا تحفظ اعلیٰ ترین قدر ہے۔ جسینڈا نے واضح طور پر کہا کہ دہشت گردی ایک جرم ہے اور آسٹریلوی باشندے نے بربریت کی مثال قائم کی ہے انسان کا اعلیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ ہمیں عقیدے کے کسی اختلاف سے قطع نظر ظلم، ناانصافی، انسانی تذلیل، امتیاز، تفرقہ اور تشدد کے خلاف پوری قوت سے کھڑے ہونا چاہئے اور بھرپور آواز بلند کرنا چاہیے۔ کیا ہم مسلم ممالک میں یہ چیزیں کرسکیں گے یا ابھی تک ٹھوس اقدامات کرسکیں ہیں، پاکستان میں کبھی قومیت کے نام پر مہاجر، پٹھان، پنجابی، بلوچ کو لڑایا گیا، مسجدوں، چرچوں اور مندروں پر حملے ہوئے۔ برما میں مسلمان نسل کشی کا شکار ہیں۔ شام، لیبیا، عراق، یمن تقریباً برباد ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے کتنے عرصے دہشت گردی کا مقابلہ کیا، بالآخر افواج پاکستان نے دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ بیروزگاری اور اقلیتوں کو ان کا جائز حق نہ دینا دنیا کے کئی ممالک کا مسئلہ ہے، جس سے جرائم جنم لیتے ہیں اور نوجوان دہشت گرد بنتے ہیں آسٹریلوی دہشت گرد نے74صفحات پر مشتمل جو منشور دیا وہ منافرت سے پُر ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی سفیدفام موجود ہے مسلمان ان کے ممالک پر قبضہ نہیں کرسکتے، لیکن اس واقعہ کی مسلمان، یہودی، ہندو، کرسچن، سکھ، بدھ نے مذمت کی جوکہ خوش آئند ہے۔ تمام مذہب کے لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ وزیراعظم جیسنڈا کے طرز عمل کی پیروی کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کے عوام نے نہ صرف اپنی عبادتگاہوں کے دروازے کھول دیئے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے انتہا پسندی کا نشانہ بننے والی مساجد پہنچے اور باہر پھول، دردمندانہ پیغامات سے بھرے کارڈز بھی رکھے سب سے اہم بات وزیراعظم کی اور عوام کی کہ درندہ کو درندہ، دہشت گرد کو دہشت گرد کہا اور اس کا دوسرے ممالک میں بھی زبردست اثر ہوا۔ آسٹریلیا میں سینیٹر نے غلط آواز نکالنا چاہی، ایک آسٹریلوی بچے نے اس کے اوپر انڈا پھوڑ کر اس کے خلاف نفرت کا اظہار کیا، اسی طرح مانچسٹر میں ایک نوجوان نے مسلمانوں کے خلاف ٹویٹ کیا تو حکومت نے اس کو گرفتار کرلیا۔ یہ رویہ جو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنایا دوسرے ممالک کیلئے ایک مثال ہے۔ سیاہ لباس میں ملبوس اس خاتون نے سر پر دوپٹہ اوڑھ کر جس طرح مسلمان کمیونٹی سے ہمدردی اور دلجوئی اور زخموں پر مرہم رکھا اس سے انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں گھر کرلیا اور تمام تارکین وطن سے کہا کہ نیوزی لینڈ آپ کا وطن ہے، یہ آپ کا گھر ہے، آپ ہمارا حصہ ہیں، میں اس شخص کا نام بھی لینا چاہتی ہوں جس شہرت کے بھوکے نے اس ملک میں دہشت گردی کی اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا، وہ بے نام رہے گا، انہوں نے مزید کہا کہ میں ان مظلموں کا نام لینا چاہتی ہوں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، یہ ہمارے اصلی ہیرو ہیں اور خصوصی طور پر پاکستانی بہادر کا ذکر کیا، جس نے دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جام شہادت نوش کرنے والوں کے لیے10ہزار ڈالر اور کہا کہ جو میت جہاں لے جانا چاہے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور ٹرمپ کو تو جو جواب دیا وہ لاجواب ہے، جب امریکی صدر ٹرمپ نے فون کیا کہ میڈم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں تو جیسنڈا نے کہا، امریکہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی سے اظہار محبت و ہمدردی کرے۔ اب جو تصویر جیسنڈا آرڈرن نے اجاگر کی ہے اس سے دنیا کے تمام ممالک کے سربراہان نے سیکھنا ہے، ہر ملک کے سربراہ کو چاہئے کہ اپنے ملک میں موجود انتہا پسندوں کا قلع قمع کرے تمام مذہبی اور سیاسی رہنما اپنا، اپنا کردار ادا کریں میڈیا کا خاص کر انتہا پسندی کے خلاف پروگرام ٹاک شوز، اقلیتوں کے حقوق اور انسانی ہمدردی کیا ہوتی ہے، دوسروں کی عزت کیسے کی جاتی ہے، غمزدہ لوگوں کا غم کیسے بانٹا جاتا ہے، اپنے پروگراموں میں موزوں رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو دلی خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کی عوام نے تمام دنیا کے لئے پیغام دیا ہے کہ ایک حقیقی اسلامی ملک وہ ہی ہوسکتا ہے جہاں عقیدے کو سیاسی اور معاشی مفادات کا آلہ کار نہیں بنایا جائے۔ ہم آپ کے ہمدردانہ طرز عمل اور قائدانہ جرأت کو اپنے دل میں محفوظ رکھیں گے۔
تازہ ترین