• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

وزیراعظم نے کراچی کے لیے ایک سوباسٹھ ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیاہے۔ اس سے پہلے بھی پچھلی حکومت نے دو سو ارب روپے کے قریب کراچی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ آخر اتنی بڑی بڑی رقم کے پیکیجز کے اعلان کا مقصد کیا ہے؟ سب سے پہلے توپیکیج کی تعریف کی جائے آخر پیکیج سے مراد کیا ہے؟ پھر اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ پھر اس مقصد کے حصول کے لیے کیا منصوبہ تیار کیا جاتا ہے؟ پھر اس پر عملدرآمد کیسے کیا اور کروایاجاتا ہے؟ افسوس آج تک ایسی کوئی تفصیل عوام تک نہیں پہنچائی جاتی ۔جس سے اندازہ ہوتا ہےکہ یہ سب حسب معمول بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایک بڑے مجمع یا الیکٹرانک میڈیا پر صرف رقم کا اعلان کرکے سیاسی کرتب (Political Stunt)دیکھانا ہوتا ہے۔ تاکہ اپنی حکومت کو چلانے کے لیے اور عددی کمی کو پوراکرنے کے لیے اپنے اتحادیوں کو وقتاً فوقتاً "چورن" اوہ معاف کیجئے گا پیکیج کا اعلان کیا جاتاہے۔کیونکہ جب باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی رقم فراہم کی جائے گی تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کے استعمال پر بھی کسی قسم کی روک ٹوک بھی نہ ہوگی۔ عوام بھی خوش اور اتحادی بھی۔ اصل حقیقت میں پیسے کہاں گئے کون پوچھتا ہے! باغ ابن قاسم کی "تیسری بحالی "کی تقریب میں وزیراعظم نے شہر کو کنکریٹ کے ٹکڑوں سے تشبیہ دی اور شجرکاری پر بہت زیادہ زور دیا کہ اس کی بدولت ہم ماحولیاتی تبدیلی کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ لیکن وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ انہوںنے میئرکراچی ، وزیراعلیٰ اور گورنر صاحبان سے یہ سوال کیوں نہ کیا کہ کیا وجہ ہے کہ " ایک ہی باغ کی بار باربحالی کی تقریب" اتنے بڑے خرچہ سے کی جارہی ہے؟ جب کہ شہر میں شہری اور صوبائی حکومتیں تسلسل کے ساتھ ایم کیو ایم اور پی پی پی کی ہی ہیں۔ تو بحیثیت حکمران پاکستان عمران خان سرزنش کرنہیں کرسکتے تھے کہ ایک طرف تو میں بچت اسکیم کی طرف جارہا ہوں دوسری طرف آپ پہلے سے موجود منصوبہ کی مناسب نگرانی اور maintenanceنہیں کرپارہے ہیں۔ تو ایسے تو کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا؟ شجرکاری کی مہم چلانا یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکنصرف درخت لگانے سے سبزہ نہیں ہوتا اس کے لیے پانی کا مناسب بندوبست بہت ضروری ہے۔ K-4کی بات تو کی گئی لیکن کراچی واٹراینڈسیوریج بورڈ کی دہائی بھول گئے، جو چیخ چیخ کہ کہہ رہا ہے کہ ہم بہت دباؤکا شکار ہیں۔ کسی قسم کے غیرقانونی ہائیڈرنٹ کو ہم ختم نہیں کرپارہے ہیں۔ اسی لیے ہماری کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ جب تک اس ادارے کو "سیاسی وغیرسیاسی مافیا "کی تسلط سے آزاد نہیں کروایا جائے گا شجرکاری کی مہم اور K-4 منصوبہ کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ بالکل اسی طرح پودے لگانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک گلی کوچوں، سڑکوں، شاہراؤں پہ پڑے کچرے کے ڈھیر کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ ہفتے کے سات دنوں میںصرف کچھ وقت کچرا اٹھایاجاتا ہے ۔ یعنی یہاں بھی سرکاری دنوں میں ہی کام کیا جاتا ہے اور دن میں صرف ایک وقت کچراٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ آپ کو باخوبی اندازہ ہوگا کہ ہرمہذب شہر خاص طور پر لندن میں ایک دن میں متعدد مرتبہ کچرے کے ڈرم خالی کئے جاتے ہیں پھر کراچی میں صرف ایک وقت ہی کیوں؟ دوسری طرف وزیراعظم صاحب نے بڑازور ڈالتے ہوئے کہاکہ میں کراچی کی زمینوں کو استعمال میں لانے کے بجائے یہاں کثیرالمنزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دیتاہوں۔بہت خوب ایک طرف ماحولیات کی تباہی کا انتباع دیتے ہیں تودوسری طرف کنکریٹ کے استعمال کی ترویج ،سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔ جناب والا! آپ کے اردگرد آجکل Real estate developersکا ہجوم ہے۔ وہ آپ کو جو سمجھاتے ہیں وہ آپ فرمادیتے ہیں ۔کثیرالمنزلہ عمارت کے لیے گیس، بجلی، پانی، سیوریج اور سڑک کی " کثیرمقدار" درکار ہوتی ہے، ایک " چھوٹی سی قطعہ زمین" کے لیے۔ ایسے میں آئے دن کی لوڈشیڈنگ ، بجلی وگیس، پانی اور سیوریج کے مسائل اور ٹریفک کے اژدہام اور پارکنگ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ایسے علاقوں کا ذرا معائنہ کرکے دیکھ لیجئے۔ مانناکہ پچھلی حکومتوں کوکراچی سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ انہیں یہاں سے ووٹ نہیں ملتا تھا۔ مگر آپ کو تو کثیرتعدادمیںووٹ بھی ملیں ہیں اور نشستیں بھی۔ توبرائے مہربانی کراچی کے مسائل کا گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیجئے۔ اوراس کے اصل مسائل حل کرنے کی کوشش کریں صرف اعلان سے کچھ نہ ہوگا۔

تازہ ترین