• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاز اڑنے کے انتظار میں اپنی نشست پہ بیٹھا میں ایک چھوٹی سی کتاب پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں ایک صاحب ہاتھ میں بیگ پکڑے آئے اور کہا ’’ایکسکیوزمی‘‘ میں ان کو دوسری سیٹ کا راستہ دینے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے بیٹھتے ہی ’’تھینک یو‘‘ اور میں نے جواباً ویلکم کہا اور پھر سے کتاب پڑھنے لگا۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ ایک بار پھر ’’ایکسکیوزمی‘‘ کی آواز سنائی دی۔ میں نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر کہا معاف کیجئے گا۔ یہ چھوٹا سا عنصر ہے۔ اس لئے آپ کو ڈسٹرب کرنے کی جسارت کی۔ کیا آپ صحافی ہیں؟ میں نے مسکرا کر جواباً عرض کیا جی نہیں۔ آپ کا چہرہ شناسا لگتا ہے۔ کیا آپ جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں میں ایک ادنیٰ کالم نگار ہوں۔ انہوں نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا کہ میں امریکہ میں رہتا ہوں۔ ویسے میرا تعلق لاہور سے ہے۔ جنگ پڑھنے کی عادت کالج کے دور سے شروع ہوئی، اب بھی میں رات سونے سے پہلے کمپیوٹر پر جنگ پڑھ کر سوتا ہوں، چیدہ چیدہ کالم بھی پڑھتا ہوں جن میں کبھی کبھار آپ کا کالم بھی شامل ہوتا ہے۔ میں نے اخلاقاً اُن کا شکریہ ادا کیا، اور ازراہ تذکرہ پوچھا آپ کو کالم کیسے لگتے ہیں۔ جواب ملا عام طور پر اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بالکل اوریج (Average)یعنی درمیانے اور اس سے کم درجے کے بھی۔ موضوع کے اعتبار سے جو اچھے لگیں وہ ایک دو پڑھ لیتا ہوں، سارے تو پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ میری گفتگو کا خزانہ ختم ہو چکا تھا۔ چنانچہ خاموش ہو گیا۔ انہوں نے پھر اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولنا شروع کیا۔ کہنے لگے صفدر صاحب معاف کیجئے گا۔ آپ تمام کالم نگار بہت بلند سطح پر بیٹھ کر لکھتے ہیں اور کالموں کا موضوع گھوم پھر کر وہی چار پانچ لیڈران یا سیاستدان ہوتے ہیں تقریباً سبھی کالم نگاروں کا زور ملکی اور کچھ بین الاقوامی سیاست پر ہوتا ہے۔ آپ خود سیاست سے ہٹ کر سماجی، روحانی، تاریخی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں لیکن کسی کالم نگار کا موضوع یا فوکس عوامی مسائل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ کالم نگار حضرات اتنے بلند درجہ دانشور ہیں کہ وہ بلندی سے اترتے ہی نہیں اور اُن بیس کروڑ عوام کے روزمرہ کے مسائل، مشکلات اور تکالیف کا ذکر کرنا کم تر سمجھتے ہیں جو اس ملک کے اصلی مالک ہیں۔ لیکن کالم نگار، دانشور اور میڈیا کے نمائندے ساری توجہ سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی سازشوں، نام نہاد بیانیوں، سیاستدانوں کی تقریروں اور حرکتوں اور حکومت کی کمزوریوں پر صرف کرتے ہیں۔ میں نے قدرے شرمندگی سے عرض کیا ہمیں روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کا اچھی طرح اندازہ ہے اور ہم ان کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ حکومت ہماری تحریروں کو پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتی۔

وہ ایک بار پھر مسکرائے اور کہنے لگے میں آپ کو اپنی بپتا سنانا چاہتا ہوں۔ وعدہ کریں اسے کالم میں لکھیں گے۔ میری کہانی ایک عام شہری کی کہانی ہے جس سے اندازہ ہو گا کہ پاکستان کے ایک عام شہری کو انصاف یا حق کے حصول سے کرپشن کے سمندر سے گزرنا پڑتا ہے لیکن حکمرانوں کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ اُن کے ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے۔ وہ احتساب کے نعرے لگا کر گلے پھاڑ رہے ہیں اور لیڈروں کی گرفتاریوں پر بغلیں بجا رہے ہیں لیکن اُن کے زیر سایہ عوام کا کیا حال ہے، کسی کو احساس نہیں یا پھر ہم نے اس ظلم اور کرپشن سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ یا ہمارے حکمران اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ اُن کا احساس تک وفات فرما گیا ہے۔

چھوٹے سے وقفے کے بعد مجھ سے پوچھا، کیا آپ اخبارات میں ہر روز ظلم کی داستانیں نہیں پڑھتے۔ کیا آپ نے وہ خبر پڑھی کہ ایک خاوند نے دوستوں کے تقاضے پورے نہ کرنے پر اپنی بیوی کے بال کاٹ کر ذاتی ملازم سے بھی تشدد کروایا اور وہ خاتون جب گنجے سر کے ساتھ تھانے پہنچی تو تھانے والوں نے ایف آئی آر درج کرنے کے لئے پانچ ہزار روپے مانگے۔ عمران خان، اُن کی کابینہ یا صوبائی وزرائے اعلیٰ اور حکمرانوں کو تو پولیس سے پالا نہیں پڑتا لیکن کیا وہ نہیں جانتے عام انسان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور غریب شہری کس طرح پامال ہو رہا ہے۔ پولیس سے ہر کسی کو پالا پڑتا ہے اس لئے یہ ہر شہری کا پرابلم ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس کے جھانسے میں آ کر یونیفارم بدلنے پر اربوں روپے برباد کرنے والے ہیں۔ کیا دوسرے رنگ کی قمیص پہننے سے پتھر دل نرم ہو جائے گا۔ سابق وزیر اعلیٰ نے یونیفارم بدلنے پر اربوں برباد کئے۔ کیا اس سے کارکردگی پر اثر پڑا۔ میں شاید اس لئے زیادہ حساس ہوں کہ امریکہ میں رہتا ہوں۔ آپ ذرا میری کہانی سنیں۔ میں نے امریکہ سے ڈالر کما کر لاہور میں گھر بنایا کہ بڑھاپے میں اپنے ملک میں رہوں گا۔ گھر کرائے پر دے دیا۔ ایک سال تک تو کرایہ ملتا رہا پھر کرایہ دار نے میرے بوڑھے والد کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ یوں ایک سال گزر گیا۔ اب میں واپس آیا تو اُس نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ ایف آئی آر کٹوانے تھانے پہنچا تو صاحب بہادر مسکرا کر کہنے لگے ڈالر کماتے ہو۔ ڈالر دو گے تو پرچہ درج ہو گا۔ میں نے انکار کیا تو جواب ملا عدالت میں جائیں۔ ہمیں افسروں کا حکم ہے لوگوں کے لین دین میں دخل مت دو۔ دوستوں کے مشورے پر وکیل کیا خاصی فیس ادا کی، مقدمہ چلا اور عدالت نے مجھے گھر کا قبضہ دلوانے کا حکم دیا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لئے پیسے دینا پڑتے ہیں۔ عدالتی عملہ رشوت لئے بغیر کارروائی نہیں کرتا اور پھر کارروائی کے لئے پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدالتی حکم کے باوجود پولیس پیسے مانگتی ہے اور پھر قدم اٹھاتی ہے۔ مجرم کو حوالات میں لے آئیں تو پیسے لے کر رات کو گھر جانے اور آرام کرنے کا انتظام کر دیتے ہیں۔ قانون میں اتنے سقم ہیں کہ وکیل حضرات بھاری فیس لے کر مقدمے کو طول دیتے رہتے ہیں تا کہ مظلوم تھک ہار کر راضی نامہ کر لے۔ مختصر یہ کہ میں نے ڈالر لا کر گھر بنایا تھا، اب اُسے سستے داموں بیچ کر واپس جا رہا ہوں تاکہ میرے بوڑھے والد کو اس اذیت سے نجات ملے۔ موجودہ حکومت نے ڈالر مہنگا کر کے اپنی کرنسی کو جس طرح سستا کیا ہے اُس سے مجھے بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ کیا ان حالات میں بیرون ملک بسنے والے پاکستانی یہاں ڈالر لا کر سرمایہ کاری کریں گے؟ یہ تو میرا ذاتی سوال ہے لیکن ہر روز جس طرح عام غریب پاکستانی نا انصافی اور ظلم کی چکی میں پس رہا ہے حکومت نے اس حوالے سے کیا کیا ہے؟ نیا پاکستان کون سا نیا پاکستان؟

ان صاحب کی کہانی تو قدرے طویل تھی لیکن میں نے وعدہ ایفائی کی خاطر اختصار سے بیان کر دی ہے۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔

تازہ ترین