• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
داعش کا خاتمہ... اب کیا ہوگا؟
شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ سے دھویں کے بادل بلند ہو رہے ہیں

داعش کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان ہوگیا۔ امریکا کی حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز اور کُرد ملیشیا 24مارچ کو شام کی جنوبی سرحد پر واقع داعش کے گڑھ میں داخل ہوئیں اور اپنی فتح کا جھنڈا گاڑا، جب کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی داعش کے خاتمے کا اعلان کرچُکے تھے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران داعش، القاعدہ کے بعد سب سے طاقت وَر شدّت پسند تنظیم کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اس نے کم و بیش پوری دُنیا ہی میں خُوں ریزی کی۔گزشتہ پانچ برس سےداعش کے خاتمے کی غرض سے دُنیا کی تقریباً تمام بڑی طاقتیں شام میں جنگ میں مصروف تھیں، جب کہ القاعدہ کے خلاف صرف امریکا اور دیگر مغربی طاقتیں برسرِ پیکار تھیں۔ مثال کے طور پر رُوسی فضائیہ نے شام پر بم باری کی، تو ایران کی افواج اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیا زمین پر جنگ لڑتی رہی۔ گرچہ مغربی طاقتیں اسے شامی صدر، بشار الاسد کے اتحادیوں کی شامی اپوزیشن کے خلاف کارروائی قرار دیتی ہیں، لیکن شامی حکومت اور رُوس اسے داعش کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں اور کچھ اسی قسم کا مؤقف ایران نے بھی اپنایا، جس نے خانہ جنگی کے دوران نہ صرف بشار حکومت کے حق میں کُھلے عام فوجی مداخلت کی، بلکہ اپنی ملیشیا اور مالی و سیاسی معاونت کے ذریعے بھی شامی افواج کے ہاتھ مضبوط کیے۔ نیز، بشار الاسد بھی اپنے مُلک میں جاری خانہ جنگی کو داعش کے خلاف لڑائی سے منسوب کرتے رہے۔ علاوہ ازیں، تُرکی اور عرب ممالک بھی امریکا کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہے۔ داعش اور دیگر شدّت پسند تنظیموں میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ اس نے ایک علاقے پر باقاعدہ قبضہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں اس کے خاتمے کی بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور بالعموم دُنیا کے لیے بڑی اہمیت ہے۔ لہٰذا، اس موقعے پریہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ مستقبل میں شام اور عراق میں، جہاں داعش کی نام نہاد حکومت قائم تھی، کیا تبدیلیاں رُونما ہوں گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن کس کے حق میں جائے گا اور متاثرہ ممالک کا مستقبل کیا ہو گا۔

مغربی میڈیا کے مطابق، داعش آج سے 16برس قبل وجود میں آئی۔ اس نے القاعدہ کے ایک دھڑے کے طور پر اُس وقت جنم لیا کہ جب امریکا نے عراق پر قبضہ کیا۔ ابوبکر البغدادی کو داعش کا سربراہ بتایا جاتا ہے۔ گرچہ وقتاً فوقتاً اُس کی موت کی خبریں سامنے آتی رہیں، لیکن تاحال اس کی حتمی تصدیق نہیں ہو سکی اور داعش کے خلاف فتح کے اعلامیے میں بھی ابوبکر البغدادی کا ذکر موجود نہیں۔ داعش نے 2011ء میں زور پکڑا اور اس کے بعد دُنیا بَھر میں اس کی پُر تشدّد کارروائیوں کا ذکر عام ہوا۔ اپنے عروج کے زمانے میں داعش مشرقِ وسطیٰ میں کم وبیش 88ہزار کلومیٹر رقبے پر قابض تھی۔ یہ علاقہ مشرق عراق سے مغربی شام کے درمیان پھیلا ہوا ہے، جس کی آبادی تقریباً 80لاکھ ہے اور اس میں مختلف قومیّتوں، مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔ داعش کی طاقت اور جنگی مہارت کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے جنگ جُوئوں نے امریکی تربیت یافتہ عراقی فوج کو شکست دے کر موصل جیسے اہم شہر پر قبضہ کیا اور یہی حال کُرد شہر، اربیل کا بھی ہوا، حالاں کہ کُرد فوج، پیش مرگہ کو اس علاقے کی بہترین فورس تصوّر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شام میں بشار الاسد کی افواج کو بھی داعش کی جارحانہ کارروائیوں کی وجہ سے اپنے تین چوتھائی علاقے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شام میں اصل جنگ شامی فوج اور اپوزیشن کے درمیان لڑی جا رہی تھی اور داعش نے اسے ہوا دی۔ 2016ء سے قبل شامی فوج شکست کے دہانے پر پہنچ چُکی تھی۔ تاہم، اس موقعے پر رُوس اور ایران نے مداخلت کر کے اسے ہزیمت سے بچا لیا۔ داعش کی طاقت کے سامنے شام و عراق کی حکومتیں اور افواج بالکل بے بس ہو گئی تھیں، جس کی وجہ سے ماہرین آج بھی تشویش کا شکار ہیں اور اس سے ریاستی سطح پر شدّت پسند تنظیموں کو تقویّت فراہم کرنے کے نتائج کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں میں تیل کے کنویں موجودتھے، جو اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم نے اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی سمیت دیگر مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اربوں ڈالرز کمائے، جنہیں اس نے اپنے قبضے کو توسیع دینے کے لیے استعمال کیا۔ داعش نے پیرس حملے اور رُوسی طیّارے کی تباہی کے علاوہ بیلجیم اور برطانیہ سمیت دیگر مقامات میں دہشت گردی کی ذمّے داری قبول کی۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی شدّت پسندی کی ترغیب دیتی رہی۔

امریکا اور رُوس داعش کے خاتمے کے لیے گزشتہ 5برس سے مشرقِ وسطیٰ میں کارروائیوں میں مصروف تھے۔ سب سے پہلے امریکا نے سابق صدر، باراک اوباما کے دَور میں عراقی شہر، رقہ پر بم باری کی، جسے داعش اپنا دارالخلافہ قرار دیتی تھی۔اس سے قبل یہاں یزدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتلِ عام کی خبریں سامنے آ رہی تھیں اور عراقی فوج امریکا کی عسکری معاونت اور کُرد ملیشیا کی مددکے باوجود یہ علاقہ بازیاب نہیں کروا سکی تھی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے اوباما نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی صُورت امریکی فوج کو عراق نہیں بھیجیں گے اور اسی لیے داعش کے خلاف کُردوں اور شامی افواج کو استعمال کیا گیا۔ بعد ازاں، 2016ء میں شامی افواج کی ناکامی کے سبب رُوس نے شام پر بم باری شروع کردی۔ اس موقعے پر ایرانی فوج نے بھی رُوس کی معاونت کی اور اس کے علاوہ لبنان کی ملیشیا، حزبُ اللہ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ تاہم، اکثر ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ کارروائی داعش کی بہ جائے شامی اپوزیشن کے خلاف تھی اور حلب میں شامی اپوزیشن کے ہتھیار ڈالنے سے اس رائے کی تقویّت ملتی ہے۔

داعش کا خاتمہ عراق اور شام کی حکومتوں کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران خود کو اس حد تک کم زور کر لیا تھا کہ ان کی رِٹ ہی ختم ہو گئی اور داعش جیسی شدّت پسند تنظیموں کے لیے کسی بھی علاقے پر قابض ہونا ممکن ہو گیا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک اسلامی دُنیا میں بدترین فرقہ واریت پھیلانے کا باعث بنے اور اسلامی دُنیا سُنّی، شیعہ کیمپوں میں بٹ گئی۔ شامی خانہ جنگی میں کم و بیش 5لاکھ شہری شہید اور ایک کروڑ 20لاکھ سے زاید بے گھر ہوئے، جن میں سے تقریباً 30لاکھ شامی مہاجرین تُرکی کی سرحد پر موجود کیمپوں میں دانے پانی کو ترس رہے ہیں۔ خانہ جنگی کے نتیجے میں پورا شام کھنڈر بن چُکا ہے اور عراق کے متعدد شہر تباہ حال ہیں۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممالک بحال ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اگر اس موقعے پر اُمّتِ مسلمہ عرب، ایران تنازعے یا برتری کی جنگ کی فضول بحث میں اُلجھنے کی بہ جائے اس اہم مسئلے کی طرف توجّہ دے، تو یہ زیادہ مناسب ہو گا۔ اس معاملے میں تُرکی کا کردار بھی اہم ہے، جو طویل عرصے تک بشار الاسد کے اقتدار کو قبول کرنے سے انکاری رہا اور اس کے خلاف سب سے پہلے آواز بھی اُٹھائی۔ نیز، شامی مہاجرین کو پناہ بھی دی اور شامی مسئلے کے جمہوری حل کا مطالبہ بھی کرتا رہا۔ بعض ماہرین یمن میں جاری خانہ جنگی کا سبب بھی داعش ہی کو قرار دیتے ہیں، تو کیا اس تنظیم کے خاتمے کے بعد عرب، ایران تنازع بھی دَم توڑ جائے گا اور اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آ جائیں گے۔پھر دیگر طاقتوں کے علاوہ کُردوں نے بھی داعش کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ایران، عراق، شام اور تُرکی میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی آزادی کے لیے تحاریک بھی چلا رہے ہیں، جس سے مذکورہ چاروں ممالک کی حکومتیں پریشان ہیں۔ امریکا کا ساتھ دینے پر تُرکی، کُردوں سے ناراض ہے اور داعش کے خاتمے کے بعد ایران میں بھی کُرد بغاوت سَر اُٹھا سکتی ہے، کیوں کہ سیستان میں کُرد باشندے بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ گرچہ امریکا سمیت کوئی بھی عالمی طاقت یہ نہیں چاہے گی کہ مذکورہ چاروں ریاستوں کے جغرافیے میں فرق آئے، تاہم کُرد باشندے داعش کے خاتمے میں اپنے کردار کا صلہ ضرور طلب کریں گے اور وہ مزید خود مختاری فراہم کرنے کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔

داعش کا خاتمہ... اب کیا ہوگا؟
داعش کے خلاف لڑنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے اہل کار

اس وقت عراق اور شام کی حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج آبادی کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں خلافتِ عثمانیہ کے دَور کی مثال دی جاتی ہے کہ جب یہ ممالک اُس کے صوبے تھے اور ان کے گورنرز نہایت احسن انداز میں ان کا نظم و نسق چلا رہے تھے۔ تاہم، جب سائیکس پائیکوٹ نامی معاہدے کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے حصّے بخرے کیے گئے، تو اُس وقت کی عالمی طاقتوں، فرانس اور برطانیہ نے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان موافقت پیدا کرنے کی بہ جائے طاقت کے بَل پر اپنی مرضی منوانے کو ترجیح دی۔ عالمی طاقتوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان صوبوں کو خود مختار ریاستوں میں تبدیل کر دیا اور پھر شام، عراق اور لیبیا سمیت دیگر ممالک میں فوجی آمریتیں قائم ہو گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تمام فوجی حُکم ران تُرکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے فوجی انقلاب سے متاثر تھے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان ممالک کی افواج کی تربیت اُس وقت کی عالمی طاقتوں ہی نے کی تھی، لہٰذا مغرب اور رُوس کے لیے ان کے اقتدار کو تسلیم کرنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ ان فوجی حُکم رانوں میں حافظ الاسد (شام)، صدام حسین (عراق)، جمال عبدالنّاصر (مصر) اور معمر قذافی (لیبیا) قابلِ ذکر ہیں، جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں بادشاہتیں قائم تھیں۔

مذکورہ فوجی حُکم رانوں نے اپنے اپنے مُلک میں اُٹھنے والی بغاوتوں کو طاقت سے کُچل دیا، جب کہ باقی ممالک میں تیل نکل آیا اور وہاں بادشاہ تیل کی دولت سے اپنے عوام کو مطمئن کرنے میں کام یاب ہوئے۔ تب امریکا اور سوویت یونین دو عالمی طاقتیں تھیں۔ اوّل الذّکر سرمایہ دارانہ نظام کی عَلم بردار تھی اور ثانی الذّکر نے اشتراکیت کا نعرہ لگایا۔اس موقعے پر مشرقِ وسطیٰ کی فوجی حکومتوں نے سوویت یونین یعنی سوشلزم کا ساتھ دیا، جب کہ بادشاہتوں نے تیل نکالنے اور فروخت کرنے کے لالچ میں امریکا کی حمایت کی۔ تاہم، ان تمام ریاستوں میں تعلیم، ٹیکنالوجی اور عوامی رائے کا احترام نہ ہونے کے برابر تھا۔ نتیجتاً، عالمی طاقتیں ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے لگیں اور پھر اسرائیل سمیت دیگر مسائل بھی ناسور بنتے گئے، لیکن ان کا حل نکالنے کی بہ جائے اسلامی ممالک، عالمی طاقتوں اور دیگر ریاستوں نے اپنی سیاست چمکائی، تاکہ مشرقِ وسطیٰ کے عوام جمہوریت سے دُور اور ان معاملات میں اُلجھے رہیں۔ اس دوران ان ممالک کے عوام بھی محض نعروں سے بہلتے رہے اور انہوں نے اپنے حُکم رانوں سے کبھی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کیا۔ 1979ء میں انقلاب کے نتیجے میں ایران میں ایک مذہبی حکومت قائم ہوئی اور خطّے کی صورتِ حال ایک بار پھر بدلنے لگی۔ اس عرصے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ، لبنان میں خانہ جنگی اور ایران، عراق جنگ سمیت دیگر اہم واقعات رُونما ہوئے، جب کہ مغربی ایشیا میں افغان جنگ ہوئی۔ تب سوویت یونین اسلامی ممالک کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر سامنے آیا اور اس کی خفیہ ایجینسی، کے جی بی کے ایجنٹس بالکل اُسی طرح ان ریاستوں میں پھیل گئے، جیسے آج امریکا کی سی آئی اے اور بلیک واٹر کے اہل کار ہر جگہ موجود ہیں۔ افغان جنگ میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین کو شکست دی اور یہ سمٹ کر رُوس تک محدود ہو گیا۔ اس پر پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک نے جَشن منایا، لیکن افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے سوگ میں بدل دیا اور پھرامریکا مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن بن کر سامنے آیا۔

داعش کا خاتمہ... اب کیا ہوگا؟
ابوبکر البغدادی

کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے منحرف مسلمان نوجوانوں نے القاعدہ کو جنم دیا اور یہ مشرقِ وسطیٰ میں ناکام ہونے کے بعد افغانستان میں جمع ہوئے۔ پھر سانحۂ نائن الیون پیش آیا اور عراق و افغانستان پر امریکا نے قبضہ کر لیا۔ نتیجتاً، بے چینی شدّت پسندی جیسے عفریت میں بدل گئی اور اس نے القاعدہ سے طالبان اور پھر داعش کی شکل اختیار کر لی۔ گرچہ اب داعش ختم ہو چُکی ہے اور طالبان، امریکا سے سمجھوتا کرنے جا رہے ہیں، لیکن ان تنظیموں سے متاثرہ ممالک کی بحالی ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اس وقت اسلامی ممالک مخمصے میں مبتلا ہیں۔ ایک جانب وہ جوابی بیانیے کی تلاش میں ہیں، تو دوسری طرف مغربی ممالک سے مذاکرات میں مصروف ہیں اور ان عوامل نے ان کی ترقّی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ آج مسلمان نوجوان خوابوں کی دُنیا میں بستے ہیں یا پھر ناسٹلجیا میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ محنت کیے بغیر ہی حالات بہتر ہو جائیں گے۔ تعلیم سے بے بہرہ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دوسروں کے دست نگر یہ نوجوان ہی اسلامی تعلیمات اور تہذیب و تمدّن سے نابلد، داعش جیسی تنظیم کے آلۂ کار بن کر اپنے مُلک کی بدنامی اور اُمتِ مسلمہ کے لیے بے پناہ مشکلات کا باعث بنے۔ تاہم، عالمی طاقتوں کے مطابق اب داعش کا خاتمہ ہو چُکا ہے، لیکن کیا اس سے اسلامی دُنیا کو کوئی فائدہ پہنچے گا اور وہ ترقّی و خوش حالی کے راستے پر گام زن ہو جائے گی۔ کیا اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں قائم ہوں گی کہ جو اپنے عوام کے اعتماد پر پوری اُتریں اور پھر انہیں کسی شدّت پسند نظریے میں کوئی کشش نظر نہ آئے۔ اہلِ دانش و فکر جانتے ہیں کہ داعش جیسی شدّت پسند تنظیموں ہی نے اسلامی دُنیا کی ترقّی کے راستے مسدود کیے۔ سو، یاد رہے کہ غیروں کی سازشوں جیسے نعرے لگانے سے مسائل ختم نہیں ہوں گے، بلکہ جمہوریت اور معاشی استحکام ہی وہ راستے ہیں، جن پر چل کر دُنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین