• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنی تاریخ کے جس کٹھن ترین معاشی و اقتصادی بحران سے دو چارہے، وہ محتاج بیاں نہیں۔ اقتصادی سرگرمیاں منجمد ہوتی دکھائی دے رہی ہیں تو مہنگائی وگرانی کو پچھلے چند ماہ میں ایسی مہمیز ملی ہے کہ اس کے سامنے عوام کی قوت خرید دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ محض اشیائے خورونوش ہی کیا، بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات تک عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، ایسے میں تعجب کیسا کہ عوام کیلئے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ حکومتی کاوشیں اپنی جگہ اسے بالآخر بیل آئوٹ پیکیج کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہی پڑےگا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے اس بیان نے حکومتی پوزیشن زیادہ واضح کر دی کہ ادائیگیوں کے توازن کے لئے اب صرف دوآپشنز بچے ہیں، اول یہ کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے اور دوسرا یہ کہ آئی ایم ایف سے پروگرام لے لے۔ کون نہیں جانتا کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں پاکستان کے پہلے سے لاغر روپے کی قدر مزید کم ہو جائے گی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ مہنگائی کا ایسا سیلاب لائے گا، جس کے آگے بند باندھنا کسی کے بس میں نہ ہو گا۔ اس سے آگے کی صورتحال اور بھی زیادہ خطرناک ہو گی کہ ملکی تجارت ہی متاثر نہیں ہو گی بلکہ سرمایہ کاری کا گراف بھی گرتا اور پاکستانی معیشت کی نبضیں ڈوبتی چلی جائیں گی۔ پاکستان کی اس حالت زار پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ بھی سامنے آئی، جس میں پاکستان کی معاشی واقتصادی ترقی خطے میں کم ترین اور مہنگائی میں اضافہ بدترین ہونے کی پیش گوئی کی گئی۔ اب آئی ایم ایف کی رپورٹ سامنے آئی ہے، جو درحقیقت ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا ذرا جامع و واضح ضمیمہ ہے۔ آئی ایم ایف کی ورلڈ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ 2019ء کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 9.2فیصد اور آئندہ مالی سال میں 8.2فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 6فیصد کے ہدف کے بجائے 6.7فیصد متوقع ہے، معاشی اشاریوں میں مزید اصلاحات لانے کی ضرورت بھی اجاگر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ 2.7رہنے کا امکان ہے، جس میں آئندہ سال اضافہ ہو گا۔ کرنٹ خسارہ رواں سال 2.5فیصد اور آئندہ سال 3.4فیصد رہے گا۔ بیروزگاری کی شرح 1.6فیصد سے بڑھ کر آئندہ سال 2.6ہو جا ئے گی۔ آئی ایم ایف کی مذکورہ رپورٹ بلاشبہ ہولناک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہے۔ اگر پاکستان نے اس ضمن میں موثر اقدامات نہ کئے تو بے یقینی کے بادل منڈلاتے رہیں گے، جس سے صنعت و زراعت ہی نہیں دیگر کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہوں گی اور سرمایہ کاری کی بھی کوئی امید باقی نہ بچے گی۔ لوگوں کا معیار زندگی روبہ زوال ہوتا ہے تو جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے اور اخلاقیات کا تو گویا جنازہ ہی نکل جاتا ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں اپنی ترجیحات وضروریات کا انتہائی احتیاط سے تعین کر کے درست سمت میں قدم بڑھانا ہوں گے۔ ورلڈ بینک کی سفارشات پر غور کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس کے 8نکاتی ایجنڈے میں ہمارے بیشتر مسائل کا حل ہی تجویز کیا گیا ہے۔ مثلاً آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول کرنا، ٹیکس اصلاحات اور تعلیم و صحت کا بجٹ بڑھانا، کاروبار کیلئے آسانیاں پیدا کرنا، وفاقی و صوبائی سطح کے معاملات میں شفافیت لانا، علاقائی روابط بڑھانے کیلئے سی پیک میں توسیع، پانی کے درست استعمال کو یقینی بنانا، اداروں کی صلاحیت میں بہتری لانا، اداروں کی شفافیت ممکن بنانے کیلئے آئی ٹی کا استعمال، انسانی سرمائے کو کام میں لانا اور انسانوں پرسرمایہ کاری کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کسی انتباہ سے کم نہیں البتہ حکومت آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لیتی ہے تو اسے عوام کا سب سے زیادہ خیال رکھنا ہو گا کہ وہ پہلے ہی قابل رحم حالت میں ہیں۔ اقتصادی استحکام کی راہ اگرچہ دشوار ہے لیکن محنت، لگن اور نیک نیتی سے کام کیا جائے تو منزل کا حصول ناممکن نہیں۔

تازہ ترین